سورة الأنبياء - آیت 106

إِنَّ فِي هَٰذَا لَبَلَاغًا لِّقَوْمٍ عَابِدِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے یقیناً ایک پیغام ہے جو عبادت کرنے والے ہیں۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

عابدین حق کے لیے پیغام : اس کے بعد فرمایا (ان فی ھذا لبلاغا لقوم عابدین) اس بات میں عبادت گزار ان حق کے لیے ایک بڑا پیام حقیقت مضمر ہے۔ یعنی اس قانون الہی کے تذکرہ میں ان کے لیے وراثت ارضی کا پیام ہے کہ (وعد اللہ الذین امنوا منکم وعملوا الصالحات لیستخلفنھم فی الارض کما استخلف الذین من قبلھم ولیمکنن لھم دینھم الذی ارتضی لھم ولیبدلنھم من بعد خوفھم وامنا) جس طرح ان سے پہلے خدا کے صالح بندوں کی وراثت میں زمین آچکی ہے، اسی طرح عنقریب ان کی وراثت میں بھی آنے والی ہے۔ اور پھر یہ انقلاب کیوں ہونے والا ہے؟ اس لیے کہ (ما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین) پیغمبر اسلام کا ظہور کرہ ارضی کے لیے رحمت الہی کا ظہور ہے۔ پس ضروری ہے کہ انسانی شقاوت کا خاتمہ ہو۔ ضروری ہے کہ اس کی جگہ رحمت الہی کا سایہ کرہ ارضی پر چھا جائے۔ اس کے بعد واضح کردیا کہ پیغمبر اسلام کی دعوت کا ماحصل کیا ہے؟ (انما الھکم الہ واحد فھل انتم مسلمون؟) باقی رہی یہ بات کہ یہ انقلاب حال کب ظہور میں آنے والا ہے؟ تو (ان ادری، قریب ام بعید ما توعدون) میں جانتا ہوں کہ یقینا ایسا ہونے والا ہے۔ لیکن ابھی اس میں کچھ دیر ہے یا بالکل سامنے آگیا؟ یہ میں نہیں کہہ سکتا۔ کیونکہ اس بارے میں بھی اللہ کے مقررہ قوانین ہیں اور وہ کام کر رہے ہیں۔ (وان ادری لعلہ فتنۃ لکم و متاع الی حین) کون جانتا ہے ہوسکتا ہے کہ جو تاخیر ہورہی ہے وہ اس لیے ہو کہ تمہیں ابھی کچھ دنوں اور آزمائش میں ڈالنا ہے۔ یا اس لیے کہ تمہارے تمتع حیات کے کچھ دن ابھی باقی ہیں۔ یہ سورت کا کتنا اہم مقام ہے ؟ سورت کے تمام بیانات کس طرح کی سب سے بڑی موعظت پر ختم ہورہے ہیں؟ اور پھر کیسی فیصلہ کن بات ہے جس میں مومنین صالحین کے لیے پیام اقبال اور منکرین مفسدین کے لیے پیام ادبار ہے؟ لیکن تفسیریں اٹھا کر پڑھو۔ ہمارے مفسر اس تیزی سے نکل گئے ہیں گویا رکنے اور نظر و تدبر سے کام لینے کی اس میں کوئی بات نہیں ہے۔