إِنَّ هَٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ
بے شک یہ ہے تمھاری امت جو ایک ہی امت ہے اور میں ہی تمھارا رب ہوں، سو میری عبادت کرو۔
تفسیر آیت (٩٢): آیت (٩٢) اس تمام تذکرہ کا خلاصہ ہے جو انبیائے کرام کا اوپر گزرچکا ہے۔ یعنی اللہ کے یہ تمام رسول جو مختلف عہدوں اور قوموں میں ظاہر ہوئے ان سب کی دعوت کا ماحصل کیا تھا؟ انہوں نے نسل انسانی کے مختلف عہدوں اور گروہوں کو کس بات کا پیام پہنچایا؟ وہ بات ایک ہی تھی یا ایک سے زیادہ؟ یہ آیت اپنے نپے تلے لفظوں میں جواب دیتی ہے کہ ان سب کا پیام ایک ہی تھا اور وہ یہی تھا کہ (ان ھذہ امتکم امۃ واحدہ وانا ربکم فاعبدون) تم سب ایک ہی امت، تم سب کا پروردگار ایک ہی پروردگار ہے۔ پس الگ الگ نہ ہو اسی کی بندگی کرو، (وتقطعوا امرھم بینھم) لیکن قوموں نے یہ تعلیم بھلا دی اور اپنے دین کا معاملہ آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا یعنی ایک ہی دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے بہت سے دین بنا لیے اور ہر گروہ دوسرے گروہ سے کٹ کر الگ ہوگیا۔ وحدت کی جگہ تفرقہ اور اجتماع کی جگہ اشتات ان کا شعار ہوا۔ (کل الینا راجعون) مگر بالآخر سب کو ہماری طرف لوٹنا ہے۔ اس وقت حقیقت حال آشکارا ہوجائے گی ہر گروہ دیکھ لے گا کہ اس کی حقیقت فراموشیوں نے اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیا تھا؟ مبادی ثلاثہ توحید : سبحان اللہ قرآن کی معجزانہ بلاغت ایک چھوٹی سی آیت کے اندر اس معاملہ کے سارے دفتر کس طرح سمیٹ دیے ہیں؟ اور پھر صرف امر و خبر ہی نہیں ہے بلکہ ترتیب بیان نے خود بخود استدلال کی روشنی بھی پیدا کردی ہے : (ا) (ان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ) تم نے کتنے ہی تفرقے پید اکر رکھے ہوں مگر تمہار امت اصلا ایک یہ امت ہے۔ (ب) (وانا ربکم) اور میں ہی تم سب کا تنہا پروردگار ہوں، میرے سوا کوئی نہیں۔ (ّج) (فاعبدون) جب تمام نوع انسانی ایک ہی امت ہوئی اور سب کا پروردگار بھی ایک ہی ہوا تو پھر سب کے لیے بندگی و نیاز کی چوکھٹ بھی ایک ہی کیوں نہ ہو؟ ایک سے دو کیوں ہو؟ پس اسی ایک کی بندگی کرو، کیونکہ تم سب ایک ہی ہو اور ایک ہی کے لیے ہو۔ یہاں ایک سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں ہے۔ غور کرو فاعبدون کی ف یہاں کس طرح بول رہی ہے؟ کس طرح اس نے استدلال کا پہلو پکار دیا ہے؟ توحید امت، توحید ربوبیت، توحید عبادت : ایک آیت کے اندر تینوں توحیدں کا بیان جمع ہوگیا : توحید امت، توحید ربوبیت، روحید دین و عبادت۔ اور یہی تین توحیدیں دعوت قرآنی کا اصل الاصول ہیں۔ وہ ہر جگہ انہی کی صدا بلند کرتا ہے اور انہی پر اپنی تعلیم و تذکیر کی ساری بنیادیں استوار کرتا ہے۔ توحید امید سے مقصد یہ ہے کہ افراد انسانی کی کثرت و انتشار کے پردے میں اس کی وحدت چھپی ہوئی ہے۔ اسے نہ بھولو۔ تمہاری نسل، تمہاری وطن، تمہاری بولیاں کتنی ہی الگ الگ ہوگئی ہوں مگر تم سب ایک ہی نسل انسانی کا گھرانا ہو اور تمہارا گروہ اصل میں ایک ہی گروہ ہے۔ توحید ربوبیت سے مقصود یہ ہے کہ تم نے کتنے ہی مختلف نام رکھ لیے ہوں، کتنی ہی مختلف عبادت گاہیں بنا رکھی ہوں، کتنے ہی مختلف تصور گھڑ لیے ہوں، مگر تمہارے پیدا کیے ہوئے اختلافات سے حقیقت مختلف نہیں ہوجاسکتی۔ جس طرح تم سب کا گروہ ایک ہی ہے اس طرح تمہارا پروردگار بھی ایک ہی ہے۔ اس ایک کے سوا اور کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔ توحید عبادت سے مقصود یہ ہے کہ جب گروہ ایک ہی گروہ ہے اور پروردگار ایک ہی پروردگار ہے تو دین بھی ایک ہی ہونا چاہیے۔ وہ ایک سے زیادہ نہیں ہوسکتا۔ پس سچائی کی راہ یہ ہوئی کہ اسی ایک کی بندگی کرو اور اس راہ میں مختلف اور متفرق نہ ہوجاؤ۔ شرط نجات صرف ایمان و عمل ہے : پھر ایک آیت کے اندر صاف صاف واضح کردیا کہ نجات و سعادت کا قانون کیا ہے؟ یعنی قوموں کے اس تقطع اور گروہوں کے اس تفرق کے بعد بھی قانون نجات و سعادت کیا ہے؟ فرمایا وہ ہمیشہ کی طرح اب بھی یہی ہے کہ (فمن یعمل من الصالحات وھو مومن فلا کفران لسعیہ) نجات کی شرط صرف دو باتیں ہیں۔ ایمان اور عمل صالح۔ جس انسان نے نیک عمل کیے اور اس کے اندر ایمان بھی ہوا تو اس کی سعی کبھی رائیگاں جانے والی نہیں۔ ضروری ہے کہ مقبول ہو۔ فمن کے زور پر غور کرو۔ یہودی کہتے تھے کونوا ھودا۔ نصاری کہتے تھے کونوا نصاری۔ قرآن کہتا ہے نہیں فمن یعمل من الصالحات وھو مومن۔ کوئی ہو لیکن اگر وہ مومن ہوا اور اس نے نیک عمل کی راہ اختیار کیا تو اس کا ایمان و عمل کبھی ضائع نہیں ہوسکتا۔ وہ اپنا اجر ضرور پائے گا۔ (وانا لہ کاتبون) یہ ہمارا ٹھہرایا ہوا قانون ہے۔ ہم اس کا ایمان و عمل لکھ دینے والے ہیں۔ پھر کون ہے جو اسے رائیگاں ٹھہرا سکتا ہے؟ دنیا کا ہر انسان ٹھہرا دے لیکن ہمارے دفتر میں وہ ثبت ہوجائے گا۔ کتنا اہم مقام ہے مگر تفسیریں اٹھا کر دیکھو، کس طرح اس کی ساری اہمیت بے محل بحثوں میں ضائع کردی گئی ہے۔ اہمیت کی وضاحت کے لیے یہ سطریں بھی کافی نہیں ہیں لیکن اس سے زیادہ تفصیل کی گنجائش نہیں۔