فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِن ضُرٍّ ۖ وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَذِكْرَىٰ لِلْعَابِدِينَ
تو ہم نے اس کی دعا قبول کرلی، پس اسے جو بھی تکلیف تھی دور کردی اور اسے اس کے گھر والے اور ان کے ساتھ ان کی مثل (اور) عطا کردیے، اپنے پاس سے رحمت کے لیے اور ان لوگوں کی یاددہانی کے لیے جو عبادت کرنے والے ہیں۔
آیت (٨٤) کی جامیعت : اس کے بعد صرف ایک آیت کے اندر پوری سرگزشت اور اس کا ماحصل بیان کردیا۔ غور کرو کس طرح یہ آیت ایک پورے صحیفہ کا کام دے رہی ہے اور کس طرح اس کا ہر جملہ اپنی جگہ ایک پورا باب ہےَ ؟ (ا) فاستجنبا لہ۔ ہم نے اس کی پکار سن لی، یعنی وحی الہی کی وہ اجابت جو سفر ایوب کے چار بابوں میں بیان کی گئی ہیں۔ ٣٨ سے ٤٢ تک۔ (ب) فکشفنا ما بہ من ضر۔ پس درد و مصیبت میں سے جو کچھ اسے پیش آیا تھا سب ہم نے دور کردیا، اس میں وہ ساری مصیبتیں آگئیں جن کی تفصیلات دو بابوں میں آئی ہیں۔ (ج) واتیناہ اھلہ : اس کا گھرانا اسے دے د یا۔ دے دیا۔ یعنی اس سے کھویا گیا تھا، پھر اسے واپس مل گیا۔ اس اشارے نے خاندانی مصیبت اور تفرقہ کی ساری داستان بتلا دی۔ (ہ) ومثلھم معھم : اتناہ اور بھی، یعنی گھر بار کا جمگھٹا پہلے سے دوچند کردیا۔ (د) لیکن یہ سب کچھ کیوں ہوا؟ اور اس سرگزشت کا ماحصل کیا ہے ؟ (رحمۃ من عندنا) یہ ہماری طرف سے رحمت کا ظہور تھا۔ کیونکہ رحمت کو پکارا گیا تھا وانت ارحم الرحمین۔ پس ضروری تھا کہ رحمت جواب دے۔ (ز) وذکری للعابدین : اور اس لیے کہ بندگی کرنے والوں کے لیے اس میں نصیحت ہو۔ یعنی یہ حقیقت آشکارا ہوجائے کہ جو عبادت گزاران حق ہیں وہ کبھی رحمت الہی کی بخششوں سے محروم نہیں رہ سکتے۔ قرآن کے قصص اور اشارات کا یہی حال ہے۔ ترجمان القرآن میں اس کی گنجائش نہیں نکل سکتی تھی کہ ہر مقام کی تفسیر اس تفصیل کے ساتھ کی جائے۔ پس صرف اس مقام کی تفسیر کرد ی گئی، تاکہ اہل نظر کے لیے ایک نمونہ کا کام دے اور تمام مقامات کا مطالعہ اسی روشنی میں کرسکیں۔ اس سلسلہ میں چار باتیں اور یاد رکھنی چاہیئں۔ حضرت ایوب عرب تھے : اولا : محققین تورات میں سے اکثر اس طرف گئے ہیں کہ حضرت ایوب عرب تھے، عرب میں ظاہر ہوئیے تھے، اور سفر ایوب اصلا قدیم عربی میں لکھی گئی تھی۔ حضرت موسیٰ نے اسے قدیم عربی سے عبرانی میں منتقل کیا۔ سفر ایوب میں ہے کہ وہ عوض کے ملک میں رہتے تھے اور آگے چل کر تصریح کی ہے کہ ان کے مویشی پرشیبا (سبا) کے لوگوں نے اور کسدیوں (بابلیوں) نے حملہ کیا۔ (١٥: ١) ان دونوں تصریحوں سے بھی اس کی تصدیق ہوجاتی ہے، کیونکہ کتاب پیدائش اور تواریخ اول میں عوض کو ارام بن سام بن نوح کا بیٹا کہا ہے، اور ارامی بالاتفاق عرب عاربہ کی ابتدائی جماعتوں میں سے ہیں۔ انیسویں صدی کے اواخر تک یہ بات پوری طرح واضح نہیں ہوئی تھی لیکن اب اس میں کوئی شک و شبہ نہیں رہا ہے۔ پھر اس مقام کا ایسی جگہ ہونا جہاں سبا اور بابل کے باشندے آکر حملہ آور ہوتے تھے ایک مزید جغرافیائی روشنی ہے۔ کیونکہ ایسا مقام بجز عرب کے اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ یقینا یہ عرب کا وہی مقام ہوگا جو قوم عام کا مسکن تسلیم کیا گیا ہے۔ یعنی عمان سے لے کر حضرموت تک کا علاقہ۔ یوباب : کتاب پیدائش اور تواریخ اول میں ایک اور سامی نام بھی ہمیں ملتا ہے، یعنی یوباب یہ بنی یقظان میں سے تھا، یقظان عبر سے پیدا ہوا، اور عبر سلح بن ارفکسد بن سام سے، سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یوباب اور ایوب ایک ہی نام نہیں ہیں؟ بالاتفاق یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ تورات میں سب سے زیادہ قدیم صحیفہ یہی ہے اور حضرت ایوب کا زمانہ حضرت موسیٰ سے بہت پہلے تھا۔ لیکن اگر یوباب سے مقصود ایوب ہیں تو انہیں حضرت ابراہیم کا معاصر ہونا چاہیے۔ یا کم از کم حضرت اسحاق اور یعقوب کا۔ سفر ایوب منظوم کتاب ہے : ثانیا : سفر ایوب کا ایک ایک جملہ کہہ رہا ہے کہ میں شعر ہوں۔ نثر نہیں ہوسکتا۔ اسی لی محققین تورات نے اسے بھی امثال اور زبور کی طرح اسلا کتاب منظوم ہی قرار دیا ہے۔ بلاغت کلام، شعریت بیان اور بلندی اسلوب کے لحاظ سے یہ اس درجہ کی کتاب ہے کہ عہد عتیق کا کوئی صحیفہ امثال و زبور مستثنی کردینے کے بعد اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ عربی علم ادب کی قدامت : ثالثا : معلوم ہوگیا کہ عربی علم ادب کی تاریخ اس عہد سے بہت پہلے شروع ہوجاتی ہے جو عہد عام طور پر سمجھ لیا گیا تھا۔ کیونکہ اگر حضرت موسیٰ سے پہلے سفر ایوب جیسی نظم عربی میں لکھی جاسکتی تھی تو یقینا عبرانی علم و ادب کے نشوونما سے صدہا سال پہلے عربی علم ادب پوری طرح ترقی یافتہ ہوچکا تھا۔ بلاشبہ سفر ایوب کی عربی وہ عربی نہ ہوگی جو نزول قرآن کے وقت بولی جاتی تھی۔ یقینا عربی کی کوئی ابتدائی شکل ہوگی جس کی اخوات ہمیں آرای، کلدانی اور آشوری کتبات کے الفاظ و اسماء میں نظر آرہی ہیں اور قدیم مصری بھی اس کی جھلک سے خالی نہیں۔ تاہم وہ عربی زبان ہی ہوگی اور اسی عربی نے موجودہ عربی کے تمام عناصر و مواد بہم پہنچائے ہوں گے۔ اصل یہ ہے کہ عہد جاہلیت کی عربی اگرچہ صحرائیوں کی عربی تھی لیکن زبان کی نوعیت بول رہی ہے کہ یہ صحرائی قبائل کی پروردہ نہیں ہوسکتی۔ اتنی وسعی، اتنی ہمہ گیر، اتنی دقیقہ سنج، اس درجہ متمول زبان ضروری ہے کہ صدیوں کی متوارث اور مسلسل ادبی زندگی سے ظہور پذیر ہوئی ہو۔ جو زبان قرآن کے معانی و دقائق کی متحمل نہیں ہوگئی کیونکر ممکن ہے کہ اسے غیر متمدن قبائل کی ایک بدوی زبان تسلیم کرلیا جائے؟ اتنا ہی نہیں بلکہ وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے جس عربی میں امرء القیس نے اشعار کہے ہیں اس عربی کی لغوی تاریخ اس سے بہت زیادہ قدیم اور بہت زیادہ متمدن ہونی چاہیے جتنی اس وقت تک سمجھی گئی ہے۔ جدید اثری انکشافات اور عربی کی قدامت : گزشتہ صدی تک عربی کی لغوی تاریخ کا یہ مسئلہ ایک لاینحل مسئلہ سمجھا جاتا تھا۔ حتی کہ بعض محققین نے مجبور ہو کر یہ رائے قائم کرلی تھی کہ زبانوں کی تخلیق اور نشوو نما کا اسے ایک فوری تحول تسلیم کرلینا چاہیے لیکن اب اثری تحقیقات کے آخر میں مواد نے بحث و تعلیل کا ایک نیا میدان پیدا کردیا ہے اور عربی نسل اور عربی زبان کی تاریخ بالکل ایک نئی شکل میں نمودار ہورہی ہے۔ یہ زبان جس پر زندگی و خلود کی آخری مہر قرآن نے لگائی، دراصل مدنی نشوو نما کے اتنے مرحلوں سے گزر چکی ہے کہ دنیا کی کوئی زبان بھی اس وصف میں اس کی شریک نہیں۔ سمیری اور اکادی اقوام کا تمدن، نینوا اور بابل کی علمی کامرانیاں، قدیم مصری لغات کا عمرانی سرمایہ، آرای زبان کا عروج و احاطہ، کلدانی اور سریانی کا ادبی تمول، دراصل ایک ہی زبان کی لغوی تشکیل و تکمیل کے مختلف مرحلے تھے اور اسی نے آگے چل کر چوتھی صدی قبل مسیح کی عربی کا بھیس اختیار کیا۔ جو زبان حضارۃ و تمدن کی اتنی بھیٹوں میں سے پک کر نکلی ہو۔ ظاہر ہے کہ اس کے اسماء و مصادر کسی مفلس اور خام زبان کے اسماء و مصادر نہیں ہوسکتے۔ تابوت احیرام کا انکشاف اور عربی کتبہ : آج ہم تعجب کے ساتھ دیکھ رہے ہیں کہ ظہور مسیح سے آٹھ نو سو برس پہلے آشوری اور بابلی زبان میں طبق، ملک، شمس، سماء، فلک، نجم، ارض وغیرہ الفاظ ٹھیک ٹھیک انہی معنوں میں مستعمل تھے جن معنوں میں آج مستعمل ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ١٩٢٣ ء کے ایک جدید اکنشاف نے تو ہمیں تیرہ سو برس قبل مسیح تک پیچھے ہٹا دیا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ عربی زبان کے ابتدائی مواد نے ایک کتابی اور ادبی زبان کی حیثیت حاصل کرلی ہے اور اس میں نہ صڑف موجودہ اسماء و مصادر ہی پائے جاتے ہیں بلکہ بعض حروف نحویہ تک موجود ہیں۔ مثلا حرف عطف وہی و ہے اور اپنی ابتدائی فینقیی شکل ( رض) میں لکھا جارہا ہے۔ الف لام بدستور حرف تعریف ہے اور ہر اسم کے پہلے اپنی نمود رکھتا ہے۔ مثلا الملک، الجبل۔ ذی (بمعنی ذو۔ ذو الجلال، ذوالقرنین) ہر جگہ نمودار ہے۔ اسم اشارہ وہی ھو ہے۔ علی اسی معنی میں مستعمل ہے جس میں اب مستعمل ہوتا ہے۔ نیز ملک فعل، طمع، فتح ٹھیک انہی معنوں میں بولے گئے ہیں جو بعد کو لغت قریش میں بولے گئے۔ عربی کا یہ کتبہ ایک تابوت پر منقش ہے۔ اس میں احیرام ملک یبلیس کی نعش رکھی گئی تھی اور اس کے بیٹے ثوبعل کے حکم سے تیار ہوا تھا۔ احیرام کا نام تورات میں بھی آیا ہے اور تاریخی حیثیت سے اس کا زمانہ بالاتفاق ١٢٥٠ قبل مسیح ہے۔ کتبہ کا خط وہی ہے ابتدائی عربی خط ہے جسے عام طور پر فینقیی خط کے نام سے پکارا جاتا ہے اور جس نے آگے چل کر آرامی، سریانی، اور نبطی خطوط کی شکلیں اختیار کی ہیں۔ اس انکشاف نے تاریخ کے متعدد گوشوں کے لیے بحث و نظر کے نئے نئے چراغ روشن کردیے۔ ازاں جملہ یہ کہ معلوم ہوگیا، تورات کے نزول اور کتب خانہ بابل کی الواح سے بھی پہلے عربی زبان کے مواد و مصادر نے ایک مکتوب و مرسوم زبان کی نوعیت اختیار کرلی تھی یعنی اس درجہ تک پہنچ چکی تھی کہ اس میں اعلانات و فرامین لکھے جاتے تھے۔ محض بول چال ہی کی زبان نہ تھی۔ نیز یہ کہ اگر ١٢٥٠ قبل مسیح عربی زبانی کی ایک ابتدائی شکل کا یہ حال تھا تو یہ بات کیوں عجیب سمجھی جائے کہ حضرت موسیٰ سے پہلے حضرت ایوب نے عربی میں کوئی منظوم صحیفہ لکھا تھا اور شریعت حمورابی بھی اصلا عربی کی کتابت ہے۔ قرآن کا عربی میں نزول : علاوہ بریں یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ قرآن کا عربی میں نازل ہونا اور جابجا اس پر زور دینا کہ (انا انزلنہ قرانا عربیا) ہم نے قرآن کسی اور زبان میں نازل نہیں کیا، عربی میں نازل کیا۔ صرف اتنے ہی معنی نہیں رکھتا جس قدر اس وقت تک سمجھے گئے ہیں بلکہ ایک بہت زیادہ وسیع اور گہری حقیقت اس میں مضمر ہے، تفصیل اس مقام کی مقدمہ میں ملے گی۔ دنیا کی قدیم ترین نظم سفر ایوب ہے : رابعا : اگر سفر ایوب کی یہ نوعیت تسلیم کرلی جائے تو مان لینا پڑے گا کہ شعر و ادب کا سب سے قدیم نمونہ یہی ہے جو اس وقت تک ہماری معلومات میں آیا ہے۔ اور اگر قدامت کے اعتبار سے دنیا کی کوئی کتاب منظوم اس سے معارضہ کرسکتی ہے تو وہ صرف ہندوستان کا رگ وید ہے بشرطیکہ اسفار ہند کی قدامت کا وہ مذہب تسلیم کرلیا جائے جو رگ وید کو ١٥٠٠ قبل مسیح یا اس سے بھی پیچھے لے جانا چاہتا ہے۔ اس وقت تک غیر غنائی شاعری کا سب سے زیادہ قدیم نمونہ ہومر کی الیڈ تسلیم کی گئی ہے۔ لیکن اگر ہومر کا عہد وہی قرار دیا جائے جو ہیروڈٹس کے بیان سے متبادر ہوتا ہے، تو زیادہ سے زیادہ ٩٠٠ قبل مسیح ہے لیکن سفر ایوب کا زمانہ اس سے بھی پہلے کا زمانہ ہونا چاہیے۔ پس قدیم تر نظم ہومر کی نہ ہوئی، سفر ایوب کی ہوئی۔ ہندوستان کی دور زمیہ نظمیں مہا بھارت اور رامائن بھی قدیم نظمیں ہیں لیکن ان کا زمانہ تصنیف بھی محققین عصر کے نزدیک چوتھی صدی قبل مسیح سے زیادہ پیچھے نہیں جاسکتا، اور زمانہ تدوین بہ شکل کتاب تو اکثروں کے نزدیک زیادہ سے زیادہ سنہ مسیحی کے ابتدائی قرون ہیں۔