وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ
اور ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، کھیلتے ہوئے نہیں بنایا۔
آیت (١٦) قرآن کے مہمات دلائل میں سے ہے لیکن ہمارے مفسروں کو اس پر حسب عادت غور کرنے کی مہلت نہ ملی۔ اس سے پہلے پچھلی قوموں کی ہلاکت اور ان کی جگہ نئی جماعتوں کے ابھرنے کا ذکر کیا تھا۔ فرمایا یہ انقلاب حال کیوں پیدا ہوا؟ آباد و خوشحالی بستیاں کیوں کٹے ہوئے کھیتوں کی طرح اجڑ گئیں؟ زندگی اور حرکت کے بھڑکتے ہوئے شعلے کیوں بجھ کے رہ گئے؟ اس لیے کہ یہاں ہمارا ایک عالمگیر قانون کام کر رہا ہے۔ یعنی حق و باطل کے تزاحم و کشاکش کا قانون۔ ہم نے کائنات ہستی کا یہ پورا کارخانہ ایک فعل عبث کی طرح نہیں بنایا ہے۔ کسی طے شدہ مصلحت و مقصد ہی سے بنایا ہے۔ وہ مقصد کیا ہے ؟ یہ کہ کئنات ہستی پستی سے بلندی کی طرف برابر ترقی کرتی جائےْ یہاں تک کہ علو رفعت کے اس انتہائی نقطہ تک پہنچ جائے جو کار فرمائے قدرت نے اس کے لیے ٹھہرا دیا ہے۔ اس مقصد کے لیے کون سا ہاتھ کام کر رہا ہے ؟ حق و باطل کی کشاکش کے قانون کا ہاتھ یعنی یہاں جو کچھ بھی ہوتا ہے اس لیے ہوتا ہے کہ حق باقی رہے اور باطل بانود ہوجائےْ حق اس لیے باقی رہتا ہے کہ اسی سے بقا اور علوو ارتفاع ہے۔ باطل اس لیے نابود ہوجاتا ہے کہ وہ نقص، فساد اور زوال ہے۔ چنانچہ زندگی اور وجود کے ہر گوشہ میں یہ کشاکش جاری ہے، فطرت حق کے ہتھیار سے باطل پر ضرب لگاتی ہے اور وہ ٹک نہیں سکتا۔ کیونکہ حق کے مقابلہ میں اس کے لیے ٹکنا نہیں، پھر اچانک ایسا ہوتا ہے کہ باطل ملیا میٹ ہوگیا اور میدان میں صرف حق ہی کی نمود باقی رہ گئی۔