قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَىٰ
فرمایا تم دونوں اکٹھے اس سے اتر جاؤ، تم میں سے بعض بعض کا دشمن ہے، پھر اگر کبھی واقعی تمھارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کے پیچھے چلا تو نہ وہ گمراہ ہوگا اور نہ مصیبت میں پڑے گا۔
آیت (١٢٣) اور (١٢٤) مہمات معارف میں سے ہے۔ ان دو آیتوں سے ہم وہ سب کچھ معلوم کرسکتے ہیں جو قرآن انسان کی روحانی سعادت و شقاوت کے بارے میں بتلانا چاہتا ہے۔ فرمایا جوہدایت وحی پر چلے گا نہ تو کامیابی کی راہ سے بے راہ ہوگا، نہ دکھی۔ پس معلوم ہوا کہ یہ ہدایت اس لیے ہے کہ انسان کو بے راہی اور اس کے لازمی نتیجہ سے محفوظ کردے۔ غور کرو، انسان کی ساری محرومیوں کی تصویر کس طرح صرف دو لفظوں کے اندر کھینچ دی ہے؟ ضلالت اور شقاوت، انسان کو جتنی ٹھوکریں بھی لگتی ہیں بے راہ ہوجانے سے لگتی ہیں ہر گوشہ میں کامیابی و سعادت کی ایک مقررہ راہ ہے۔ جونہی اس سے قدم بے راہ ہوئے، شقاوت میں گر گئے، پھر فرمایا جس نے ہمارے ذکر سے اعراض کیا تو اسے دو حالتیں پیش آئیں گی، دنیا میں اس کی زندگی ضیق میں پڑجائے گی، یعنی وہ بظاہر کتنا ہی نہال ہوجائے لیکن دل کی طمانیت اور روح کا انبساط اسے کبھی نہیں ملے گا، اور آخرت میں بینائی سے محروم ہوجائے گا۔ سعید انسانوں کی نگاہیں روشن ہوں گی، اس کی اندھی، وہ جمال الہی کا نظارہ کریں گی، اس کے آگے پردہ پڑا ہوگا۔ (کلا انھم عن ربھم یومئذ لمحجوبون) وہ اندھا کیوں ہوجائے گا؟ اس لیے کہ آخرت کی زندگی دنیوی زندگی کا نتیجہ ہے، اس نے دنیا میں قدرت کی نشانیوں سے آنکھیں بند کرلی تھیں اس لیے آخرت میں بھی اس کی آنکھیں بند رہیں گے (من کان فی ھذہ اعمی فھو فی الاخرۃ اعمی و اضل سبیلا) یہاں سے معلوم ہوگیا کہ قرآن کے نزدیک ثواب آخرت کی حقیقت یہ ہے کہ نگاہیں جمال الہی کے نظارہ سے شاد کام ہوں گی۔ عذاب کی یہ ہے کہ اندھی ہو کر محجوب ہوجائیں گی۔