فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۗ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِن قَبْلِ أَن يُقْضَىٰ إِلَيْكَ وَحْيُهُ ۖ وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا
پس بہت بلند ہے اللہ جو حقیقی بادشاہ ہے، اور قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کر، اس سے پہلے کہ تیری طرف اس کی وحی پوری کی جائے اور کہہ اے میرے رب! مجھے علم میں زیادہ کر۔
آیت (١١٤) میں فرمایا جب تک سلسلہ وحی پورا نہ ہوجائے اس بارے میں جلدی نہ کر اور منتظر رہ کہ فیضان غیب کی بخشائشیں کہاں تک مالا مال کرتی ہیں َ تیری زبان حال کی صدا تو یہ ہونی چاہیے کہ (رب زدنی علما) یعنی میری تشنگی کی سیرابی کے لیے علم کے یہ سارے دریا اور عرفان حقیقت کی یہ ساری بارشیں بھی کافی نہیں۔ اے علم کی لا انتہائی اور حقیقت کی ناپید کناری، اپنی بخششیں اور زیادہ کر۔ اس آیت نے واضح کردیا کہ پیغمبر اسلام کے مقام علم و عرفان کی وسعت و عظمت کا کیا حال تھا؟ وہ کسی حد پر بھی رکنا نہیں چاہتی تھی۔ اس کے لیے کوئی زیادتی بھی نہ تھی۔ اس کے لیے ہر افاضہ نئے استفاضہ کا اشارہ تھا۔ اس کے لیے ہر عطیہ نئے عطیہ کا تقاضا تھا۔ وہ یکسر طلب تھی، پیہم رب زدنی کا سوال تھی، یہ معلوم ہے کہ یہاں مطلوب کی وسعت کے لیے کوئی انتہا نہیں ہوسکتی لیکن یہ کونکر معلوم کیا جائے کہ طالب کی طلب کہاں جاکر منتہی ہوئی تھی؟