قَالَ بَلْ أَلْقُوا ۖ فَإِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِن سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَىٰ
کہا بلکہ تم پھینکو، تو اچانک ان کی رسیاں اور ان کی لاٹھیاں، اس کے خیال میں ڈالا جاتا تھا، ان کے جادو کی وجہ سے کہ واقعی وہ دوڑ رہی ہیں۔
یخیل الیہ من سحرھم۔ یعنی جادوگروں کی رسیاں اور لاٹھیاں سانپ نہیں بن گئی تھیں بلکہ ان کی شعبدہ گری کی وجہ سے دیکھنے والا خیال کرنے لگتا سانپ کی طرح کر رہی ہیں، چنانچہ آگے چل کر کہا : (انما صنعوا کید ساحر، ولا یفلح الساحر حیث اتی) یہ جادوگروں کا فریب نظر ہے اور جادوگر کیسا ہی تماشہ دکھائے حقیقت کی طرح کامیاب نہیں ہوسکتا۔ سورۃ اعراف میں اس واقعہ کی تشریحات گزر چکی ہیں اور آئندہ سورتوں میں مزید تشریحات ملیں گی۔ سورۃ اعراف میں گزر چکا ہے شکست کھانے کے بعد فرعون نے جادوگروں سے کہا، یہ تمہاری ملی بھگت ہے کہ موسیٰ کو جتا دیا۔ یہاں اس کے قول کا دوسرا حصہ نقل کیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ تمہارا سردار ہے تم جادو میں اس کے شاگرد ہو، اس لیے اس کے آگے گر پڑے، مقصود اس سے یہ تھا کہ عوام پر حقیقت حال مشتبہ کردے اور شکست کی ذلت چھپائے۔ جادوگروں کا مقولہ آیت (٧٣) پر ختم ہوگیا۔ اس کے بعد کی تین آیتوں میں ان کے ایمان باللہ اور امید مغفرت و رضوان کی تصدیق کی ہے اور واضح کیا ہے کہ عذاب اخروی انہی کے لیے جو زندگی میں مجرم رہے، جو ایمان لے آئے اور نیک عملی اختیار کرلی تو ان کے لیے درجوں کی بلندی اور روحانی زندگی کی کامرانیاں ہوں گی۔ اس میں اشارہ ہے کہ سحرہ فرعون کا اللہ کے حضور بڑا درجہ ہوا، کیونکہ انہوں نے قبولیت حق کی استعداد اور اس کی استقامت دونوں کا ثبوت دے دیا۔ ان کا کفر ساری زندگی کا کفر تھا اور ایمان صرف چند لمحوں کا ایمان لیکن چند لمحوں کے ایمان نے عمر بھر کا کفر محو کردیا۔ ان کا دل صدیقوں کا دل اور ان کی صدا شہدائے حق کی صدا ہوگئی۔ مصری شہناہی کا سارا قہر و جلال ایک پل کے لیے بھی ان کی استقامت ایمانی پر غالب نہ آسکا۔