وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ۖ فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
اور جو لوگ تم میں سے فوت کیے جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں وہ (بیویاں) اپنے آپ کو چار مہینے اور دس راتیں انتظار میں رکھیں، پھر جب اپنی مدت کو پہنچ جائیں تو تم پر اس میں کچھ گناہ نہیں جو وہ اپنی جانوں کے بارے میں معروف طریقے سے کریں اور اللہ اس سے جو تم کرتے ہو پوری طرح باخبر ہے۔
جو عورتیں بیوہ ہوجائیں، ان کی نسبت احکام، اور ان مفاسد کا انسداد جو اس بارے میں پھیلے ہوئے تھے : 1۔ وفات کی عدت چار مہینے دس دن مقرر کرکے ان مفاسد کی اصلاح کردی جو اس بارے میں افراط و تفریط کا موجب تھے۔ نہ تو عورت فوراً ہی دوسرا نکاح کرسکتی ہے کہ اس میں معاملہ نکاح کی بے وقعتی اور مرحوم شوہر کے تذکار و محبت سے تغافل ہے۔ نیز نسب بھی مشتبہ ہوسکتا ہے۔ اور نہ یہ ہونا چاہیے کہ زیادہ مدت تک عورت کو شوہر کا سوگ منانے کے لیے مجبور کیا جائے۔ 2۔ اگر عورت عدت کے بعد دوسرا نکاح کرنا چہے تو اسے نہیں روکنا چاہیے، اور نہ اس بات کا خواہشمند ہونا چاہیے کہ عدت کی مقررہ مدت سے زیادہ شوہر کا سوگ کرے (جیسا کہ عرب جاہلیت میں لوگ کیا کرتے تھے)۔