وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَيْكَ مَرَّةً أُخْرَىٰ
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے تجھ پر ایک اور بار بھی احسان کیا۔
حضرت موسیٰ کو ان کی پیداش کا واقعہ اس لیے یاد دلایا گیا کہ انہیں معلوم ہوجائے مشیت الہی کا ہاتھ اول دن سے انہیں چن چکا ہے اور ایسے عجیب و غریب حالات میں ان کی پرورش ہوئی ہے جو بغیر قدرت کی کرشمہ سازیوں کے ظہور میں نہیں آسکتے، پھر ان کا مصر سے نکلنے پر مجبور ہونا اور مدین کے بیابانوں میں صحرا کی زندگی بسر کرنا اسی لیے تھا کہ پیش آنے والے معاملہ کے لیے ان ساری باتوں کی ضرورت ھی۔ جب یہ سب کچھ ہوچکا اور شخصیت تیار ہوگئی تو پردہ غیب چاک ہوا اور ندائے حق نے نمودار ہو کر کام پر لگا دیا۔ چنانچہ اسی لیے فرمایا (وفتناک فتونا) ہم نے تجھے ہر طرح کی حالتوں میں ڈال کر آزمایا (ثم جئت علی قدر یا موسی) پھر بالآخر تم اس اندازہ پر ٹھیک اتر آئے جو تمہاری تکمیل کے لیے ٹھہرا دیا گیا تھا۔