وَهَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَىٰ
اور کیا تیرے پاس موسیٰ کی خبر پہنچی ہے۔
آیت (٩) میں فرمایا کیا حضرت موسیٰ کی سرگزشت پر تم نے غور نہیں کیا؟ ان کی پوری سرگزشت کس طرح اس حقیقت کی مجسم شہادت ہے، پھر حضرت موسیٰ کی ابتدائی زندگی کا وہ واقعہ بیان کیا ہے جب وہ مدین کی بستی میں مقیم تھے اور اپنے خسر کا گلہ چرایا کرتے تھے، اسی زمانہ میں ان کا گزر سینا کے قرب و جوار میں ہوا اور وہیں یہ معاملہ پیش آیا۔ تورات میں اس جگہ کو حورب کہا ہے۔ یہ سینا کا مشرقی گوشہ تھا۔ تورات میں ہے کہ انہوں نے درخت میں آگ دیکھی اور متعجب ہو کر قریب گئے۔ (خروج : ٣: ٣) لیکن قرآن سے معلوم ہوتا ہے محض رفع تعجب کے لیے نہیں گئے تھے بلکہ آگ کی جستجو میں تھے۔ سورۃ نمل کی آیت (٧) سے مزید وضاحت ہوگئی ہے وہ مع اہل و عیال کے بیابان میں تھے، رات ٹھنڈی تھی اور سوچ رہے تھے کہیں سے آگ مل جائے تو تانپے کے لیے الاؤ جلائیں۔ اتنے میں دور پر ایک روشنی آگ کی طرح نظر آئی۔ یہ سمجھے وہ آگ ہے، لیکن جب قریب پہنچے تو کار فرمائے قدرت نے پکارا۔ اے موسیٰ تو اس آگ کی چنگاری لے کر کیا کرے گا؟ تیرے ہاتھوں ایک دوسری ہی آگ روشن ہونے والی ہے۔ (انا اخترتک فاستمع لما یوحی) بال بکشاؤ صفیر از شجر طوبی زن۔۔۔۔ حیف باشد چو تو مرغے کہ اسیر قف سے جوتی اتار دینے کا حکم اس لیے ہوا کہ تعظیم کی جگہ ننگے پاؤں ہوجانا قدیم اور عام رسم تھی،۔ چنانچہ بابل اور مصر میں بادشاہ کے حضور برہنہ پا ہو کر آتے تھے، تورات میں بھی اس حکم کا ذکر ہے۔ (خروج : ٦: ٣)