وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ
اور وہ تجھ سے حیض کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دے وہ ایک طرح کی گندگی ہے، سو حیض میں عورتوں سے علیحدہ رہو اور ان کے قریب نہ جاؤ، یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائیں، پھر جب وہ غسل کرلیں تو ان کے پاس آؤ جہاں سے تمھیں اللہ نے حکم دیا ہے۔ بے شک اللہ ان سے محبت کرتا ہے جو بہت توبہ کرنے والے ہیں اور ان سے محبت کرتا ہے جو بہت پاک رہنے والے ہیں۔
مشرکین سے مناکحت کے بیان نے نکاح و طلاق اور ازدواجی زندگی کی مہمات کی طرف سلسلہ بیان پھیر دیا ہے۔ عورتوں سے ان کے مہینے کے خاص ایام میں علیحدگی کا حکم اور اس حقیقت کا اعلان کہ علیحدگی کا سبب یہ نہیں ہے کہ عورتیں ناپاک ہوجاتی ہیں اور ملنے جلنے اور چھونے کے قابل نہیں رہتیں، جیسا کہ یہودیوں کا خیال تھا۔ بلکہ صرف یہ بات ہے کہ ان ایام میں زنا شوئی کا تعلق مضر ہے، اور صفائی اور طہارت کے خلاف ہے۔ فطرت نے مرد اور عورت کے باہم ملنے اور وظیفہ زوجیت ادا کرنے کے لیے جو بات جس طرح ٹھہرا دیہے، اسی طرح ہونی چاہیے۔ اس کے سوا اور کوئی بات نہیں ہونی چاہیے۔ اللہ کی پسندیدگی ان کے لیے جو ناپاکی کی تمام باتوں سے اپنی نگہداشت کرتے ہیں۔ اس معاملہ کی نسبت جو وہم پرستیاں لوگوں میں پھیلی ہوئی ہیں اور طرح طرح کی قیدیں اپنے پیچھے لگا رکھی ہیں۔ مثلاً کسی خاص طریقے کو جائز سمجھتے ہیں کسی کو ناجائز کسی خاص طریقے میں برکت سمجھتے ہیں، کسی میں نحوست تو ان کی کوئی اصلیت نہیں۔ جس طرح بھی چاہو فطری طریقے سے یہ معاملہ کرسکتے ہو۔