وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هَٰذَا الْقُرْآنِ لِلنَّاسِ مِن كُلِّ مَثَلٍ ۚ وَكَانَ الْإِنسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لیے ہر مثال پھیر پھیر کر بیان کی ہے اور انسان ہمیشہ سے سب چیزوں سے زیادہ جھگڑنے والا ہے۔
آیت (٥٤) سے (٥٧) تک فرمایا تھا کہ منکرین قرآن کی شقاوت انتہائی حد تک پہنچ چکی ہے، طلب حق کی جگہ جدل و نزاع اور عبرت پزیری کی جگہ تمسخر و استہزا ان کا شیوہ ہے۔ ان کی عقلیں ماری گئی ہیں اور حواس معطل ہوچکے ہیں۔ تم کتنی ہی رہنمائی کرو، راہ پانے والے نہیں۔ پھر آیت (٥٨) میں فرمایا منکروں کی ان سرکشیوں کا نتیجہ کیوں اچانک ظہور میں نہیں آجاتا؟ کیوں ان کے لیے خوشحالیاں ہیں اور پیروان حق کے لیے درماندگیاں؟ اس لیے کہ تمہارا پروردگار رحمت والا ہے اور یہاں رحمت کا قانو کام کر رہا ہے، رحمت کا مقتضا یہی تھا کہ ایک خاص وقت تک سب کو مہلت کار ملے۔ چنانچہ مہلت کی رسی ڈھیل دے رہی ہے، لیکن جونہی مقررہ وقت آگیا پھر نتائج ٹلنے والا نہیں، اب آیت (٦٠) میں اسی معاملہ کا ایک دوسرا پہلو واضح کیا ہے، اور یہ فی الحقیقت کائنات ہستی کے مسائل میں سے ایک نہایت اہم مسئلہ کا حل ہے۔ فرمایا بلاشبہ موجودہ حالت ایسی ہی ہے کہ سرکشوں کے لیے کامرانیاں دکھائی دیتی ہیں، مومنوں کے لیے محرومیاں، لیکن صرف اتنی ہی بات دیکھ کر حقیقت حال کا فیصلہ نہ کرلو۔ یہاں معاملات کی حقیقت وہی نہیں ہوا کرتی جو بظاہر دکھائی دیا کرتی ہے۔ کتنی ہی اچھائیاں ہیں جو فی الحقیقت برائیاں ہوتی ہیں اور کتنی ہی برائیاں ہیں جو فی الحقیقت اچھائیاں ہوتی ہیں۔ تمہاری عقل صرف ظواہر دیکھ کر حکم لگادیتی ہے مگر نہیں جانتی ان ظواہر کی تہ میں کیسے بواطن پوشیدہ ہیں؟ سرکشوں کے لیے اس وقت کامرانیاں ہیں مومنوں کے لیے محرومیاں، لیکن کیا فی الحقیقت سرکشوں کی کامرانیاں، کامرانیاں ہیں اور مومنوں کی محرومیاں، محرومیاں ؟ اس کا تم فیصلہ نہیں کرسکتے، جب پردہ اٹھے گا تو دیکھ لوگے کہ حقیقت حال کیا تھی۔ اس حقیقت کی وضاحت کے لیے ایک واقعہ بیان کیا ہے، جو حضرت موسیٰ کو پیش آیا تھا۔