وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا
اور رات کے کچھ حصے میں پھر اس کے ساتھ بیدار رہ، اس حال میں کہ تیرے لیے زائد ہے۔ قریب ہے کہ تیر ارب تجھے مقام محمود پر کھڑا کرے۔
آیت (٧٩) میں مقام محمود سے مقصود ایسا درجہ ہے جس کی عام طور پر ستائش کی جائے۔ فرمایا کچھ بعید نہیں کہ تمہارا پروردگار تمہیں ایسے مقام پر پہنچا دے جو عالمگیر اور دائمی ستائش کا مقام ہو۔ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب پیغمبر اسلام کی مکی زندگی کے آخری سال گزر رہے تھے اور مظلومیت اور بے سروسامانی اپنے انتہائی درجوں تک پہنچ چکی تھی۔ حتی کہ مخالف قتل کی تدبیروں میں سرگرم تھے۔ ایسی حالت میں کون امید کرسکتا تھا کہ انہی مظلومیتوں سے فتح و کامرانی پیدا ہوسکتی ہے؟ لیکن وحی الہی نے صرف فتح و کامرانی ہی کی بشارت نہیں دی کیونکہ فتح و کامرانی کی عظمت کوئی غیر معمولی عظمت نہ تھی۔ بلکہ ایک ایسے مقام تک پہنچنے کی خبر دی جو نوع انسانی کے لیے عظمت و ارتفاع کی سب سے آخری بلند ہے۔ یعنی (عسی ان یبعثک ربک مقاما محمودا) حسن و کمال کا ایسا مقام جہاں پہنچ کر محمودیت خلائق کی عالمگیر اور دائمی مرکزیت حاصل ہوجائے گی۔ کوئی عہد ہو، کوئی ملک ہو، کوئی نسل ہو، لیکن کروڑوں دلوں میں اس کی ستائش ہوگی، ان گنت زبانوں پر اس کی مدحت طرازی ہوگی، محمود یعنی سرتاسر ممدوح ہستی ہوجائے گی : ما شئت قل فیہ، فانت مصدق۔۔۔۔ فالحب یقضی والمحاسج تشھدا !!! یہ مقام انسانی عظمت کی انتہا ہے۔ اس سے زیادہ اونچی جگہ اولاد آدم کو نہیں مل سکتی۔ اس سے بڑح کر انسانی رفعت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ انسان کی سعی و ہمت ہر طرح کی بلندوں تک اڑ جاسکتی ہے لیکن یہ بات نہیں پاسکتی کہ روحوں کی ستائش اور دلوں کی مداحی کا مرکز بن جائے۔ سکندر کی ساری فتوحات خود اس کے عہد و ملک کی ستائش اسے نہ دلا سکیں، اور نپولین کی ساری جہاں ستانیاں اتنا بھی نہ کرسکیں کہ کورسیکا کے چند غدار باشندوں ہی میں اسے محمود ممدوح بنا دیتیں، جہاں وہ پیدا ہوا تھا۔ محمودیت اسی کو حاصل ہوسکتی ہے جس میں حسن و کمال ہو، کیونکہ روحیں حسن ہی سے عشق کرسکتی ہیں اور زبانیں کمال ہی کی ستائش میں کھل سکتی ہیں ِ لیکن حسن و کمال کی مملکت وہ مملکت نہیں جسے شہنشاہوں اور فاتحوں کی تلواریں مسخر کرسکیں۔ غور کرو جس وقت سے نوع انسانی کی تاریخ معلوم ہے نوع انسانی کے دلوں کا احترام اور زبانوں کی ستائشیں کن انسانوں کے حصے میں آئی ہیں؟ شہنشاہوں اور فاتحوں کے حصہ میں یا خدا کے ان رسلوں کے حصے میں جنہوں نے جسم و ملک کو نہیں روح و دل کو فتح کیا تھا؟ یہ مقام محمود ہے جس کی خبر ہمیں ایک دوسری آیت میں دی گئی ہے ور خبر کے ساتھ امر بھی ہے۔ (ان اللہ وملائکتہ یصلون علی النبی یا ایھا الذین امنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما) بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام کا ایک مشہد وہ معاملہ ہوگا جو قیامت کے دن پیش آئے گا۔ جب کہ اللہ کی حمد و ثنا کا علم آپ بلند کریں گے اور بلاشبہ محمودیت کا مقام دنیا و آخرت دونوں کے لیے ہے۔ جو ہستی یہاں محمود خلائق ہے وہاں بھی محمود و ممدوح ہوگی۔