وَإِذْ قُلْنَا لَكَ إِنَّ رَبَّكَ أَحَاطَ بِالنَّاسِ ۚ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ ۚ وَنُخَوِّفُهُمْ فَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا طُغْيَانًا كَبِيرًا
اور جب ہم نے تجھ سے کہا کہ بے شک تیرے رب نے لوگوں کا احاطہ کر رکھا ہے اور ہم نے وہ منظر جو تجھے دکھایا، نہیں بنایا مگر لوگوں کے لیے آزمائش اور وہ درخت بھی جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے۔ اور ہم انھیں ڈراتے ہیں تو یہ انھیں بہت بڑی سرکشی کے سوا زیادہ نہیں کرتا۔
اس کے بعد آیت (٦٠) میں دو باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے : اسری کا واقعہ اور اس درخت کا معاملہ جس کا قرآن میں ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی (ان شجرۃ الزقوم طعام الاثیم) جہنم میں تھوہر کا درخت مجرموں کی غذا ہوگی۔ منکروں نے ان دونوں باتوں کی ہنسی اڑائی تھی، جیسا کہ روایات صحیحہ سے ثابت ہے۔ اسری کا معاملہ جب بیان کیا گیا تو کہنے لگے یہ جنون کی انتہا ہے اور جہنم کے اہوال و شدائد کی جب آیتیں سنائی گئیں تو کہنے لگے، جہنم بھی عجیب جگہ ہوئی ہے جہاں آگ کے شعلوں میں درخت پیدا ہوں گے۔ فرمایا ان دونوں باتوں میں ان لوگوں کے لیے آزمائش ہوئی۔ اگر طالب حق ہوتے تو ہنسی اڑانے کی جگہ عقل و بصیرت سے کام لتیے۔