وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَىٰ عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا
اور نہ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا کرلے اور نہ اسے کھول دے، پورا کھول دینا، ورنہ ملامت کیا ہوا، تھکا ہارا ہو کر بیٹھ رہے گا۔
آیت (٢٩) جوامع مواعظ میں سے ہے۔ فرمایا : مال و دولت خرچ کرنے میں اور ہر بات میں اعتدال کی راہ اختیار کرو۔ کسی ایک ہی طرف کو جھک نہ پڑو۔ مثلا خرچ کرنے پر آئے تو سب کچھ اڑا دیا۔ احتیاط کرنی چاہی تو اتنی کی کہ کنجوسی پر اتر آئے۔ دراصل تمام محاسن و فضائل کی بنیادی حقیقت توسط و اعتدال ہے اور جتنی برائیاں بھی پیدا ہوتی ہیں افراط و تفریط سے پیدا ہوتی ہیں۔ قرآن نے قتل نفس کو انسان کی سب سے بڑی معصیت قرار دیا ہے۔ شرک کے بعد اگر کوئی برائی ہوسکتی ہے تو وہ یہی ہے : (والذین لا یدعون مع اللہ الھا آخر ولا یقتلون النفس التی حرم اللہ الا بالحق) اس بارے میں طبیعت انسانی کے لیے اصلی آزمائش کا وقت وہ ہوتا ہے جب انتقام کا جوش ابھر آتا ہے وار بسا اوقات ایک قتل کے بدلے سینکڑوں جانوں کا خون بہا دیا جاتا ہے۔ پس یہاں آیت (٣٣) میں خصوصیت کے ساتھ اس فتنہ پر توجہ دلائی : (فلایسرف فی القتل) جو شخص ظلم سے مارا جائے تو اس کے وارثوں کو قصاص کے مطالبہ کا حق دیا گیا ہے لیکن اس حق کا بے جا استعمال نہیں ہونا چاہیے کہ ایک خونریزی کے بدلے بہت سی خوں ریزیاں ہوجائیں َ