عَسَىٰ رَبُّكُمْ أَن يَرْحَمَكُمْ ۚ وَإِنْ عُدتُّمْ عُدْنَا ۘ وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَافِرِينَ حَصِيرًا
تمھارا رب قریب ہے کہ تم پر رحم کرے اور اگر تم دوبارہ کرو گے تو ہم (بھی) دوبارہ کریں گے اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے قید خانہ بنایا ہے۔
آیت (٨) نے دو لفظوں کے اندر وہ سب کچھ کہہ دیا جو جزائے عمل کے بارے میں کہا جاسکتا ہے اور اس سے قرآن کی معجزانہ بلاغت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے : (وان عدتم عدنا) اگر تم پھر انہی شرارتوں کی طرف لوٹے تو ہم بھی لوٹیں گے۔ یعنی اگر تم بدعملیوں کی طرف لوٹو گے تو اللہ کا قانون مجازات بھی پاداش و عقوبت کی طرف لوٹے گا۔ جونہی تم نے برائی کا رخ کیا، نتائج عمل کا قانون بھی پاداش و عقوبت میں سرگرم ہوگیا۔ عمل اور نتیجہ دو ایسی لازم و ملزوم حقیقتیں ہیں جو کسی حال میں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتیں۔ نتیجہ عمل کا سایہ ہے۔ جہاں عمل اایا اس کا سایہ بھی ساتھ آگیا۔ تم نے اچھے عمل کی طرف رخ کیا، اور اچھے نتائج بھی تمہاری طرف تکنے لگے۔ تم نے برے عمل کی طرف قدم اٹھایا، برے نتائج کے بھی قدم اٹھ گئے۔ اس راہ میں جتنے بڑھتے جاؤ اور جس قدر بھی غور کرو، حقیقت ہر جگہ یہی نظر آئے گی کہ (ان عدتم عدنا) آیت کا مطلب یہ ہے کہ دو ہلاکتیں ہوچکیں۔ اب تیسری مہلت تمہیں ملی ہے۔ یعنی دعوت حق کے ظہور نے رحمت الہی کی بخشائشوں کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اگر انکار و سرکشی سے باز آجاؤ تو تمہارے لیے سعادت و کامرانی ہے۔ باز نہ آؤ گے تو پھر جس طرح دو مرتبہ نتائج عمل کا قانون اپنی عقوبتیں دکھلا چکا ہے۔ تیسری مرتبہ بھی دکھلائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ یہودویوں نے جس طرح اس مہلت سے فائدہ نہیں اٹھایا تھا جو حضرت مسیح کے ظہور نے انہیں دی تھی اسی طرح دعوت اسلام سے بھی فائدہ نہ اٹھایا اور محرومی و نامرادی کی مہر ہمیشہ کے لیے ان کی قسمت پر لگ گئی۔ آیت (٨) میں فرمایا تھا عجب نہیں کہ پروردگار تم پر رحم فرمائے اگر سرکشی و فساد سے باز آجاؤ اور دعوت حق پر لبیک کہو۔ پس آیت (٩) میں اس کی مزدی تشریح کی اور فرمایا : (ان ھذا القرآن یھدی للتی ھی اقوم) قرآن ہدیات کی ایسی راہ دکھاتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھی راہ ہے اور ان لوگوں کے لیے جو اس راہ پر چلیں ہر طرح کی کامیابیوں کی بشارت ہے۔ قرآن نے اپنے جس قدر اوصاف بیان کیے ہیں ان سب میں جامع ترین وصف یہی ہے۔ زندگی اور سعادت کے ہر گوشہ میں اس کی رہنمائی سیدھی سے سیدھی بات کے لیے ہے۔ کسی طرح کی کجی، کسی طرح کا پیچ و خم، کسی طرح کا الجھاؤ، کسی طرح کی افراط تفریط اس کی رہنمائی میں نہیں ہوسکتی۔ یہی حقیقت دوسری جگہ صراط مستقیم اور دین القیم سے تعبیر کی گئی ہے۔