وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِن بَعْدِ قُوَّةٍ أَنكَاثًا تَتَّخِذُونَ أَيْمَانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ أَن تَكُونَ أُمَّةٌ هِيَ أَرْبَىٰ مِنْ أُمَّةٍ ۚ إِنَّمَا يَبْلُوكُمُ اللَّهُ بِهِ ۚ وَلَيُبَيِّنَنَّ لَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ
اور اس عورت کی طرح نہ ہوجاؤ جس نے اپنا سوت مضبوط کرنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کرکے توڑ ڈالا، تم اپنی قسموں کو اپنے درمیان فریب کا ذریعہ بناتے ہو، اس لیے کہ ایک جماعت دوسری جماعت سے بڑھی ہوئی ہو، اللہ تو تمھیں اس کے ساتھ صرف آزماتا ہے اور یقیناًقیامت کے دن وہ تمھارے لیے ضرور واضح کرے گا جس میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔
یہاں خصوصیت کے ساتھ جماعتی عہد و قرار کے احترام پر زور دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا (تتخذون ایمانکم دخلا بینکم ان تکون امۃ ھی اربی من امۃ) اگر تم نے ایک گروہ سے معاہدہ کیا ہے اور کل کو اس کا مخالف گروہ زیادہ طاقتور نظر آئے تو محض اس لیے کہ طاقتور کا ساتھ دینا تمہارے لیے زیادہ مفید ہوگا، نہ کہ کمزور کا، بد عہدی پر آمادہ ہوجاؤ۔ جب تم نے ایک گروہ سے قول و قرار کرلیا تو ہر حال میں اس کا پورا کرنا لازمی ہوگیا۔ خواہ وہ کمزور ہوگیا ہو، خواہ طاقتور، اگر اس کے مخالف طاقتور ہوگئے ہیں اور ان کے خلاف جانے میں تمہارے لیے خطرات ہیں تو تمہارا فرض ہے کہ خطرات برداشت کرو، کیونکہ تم عہد کرچکے ہو۔ پھر اس طرح کی بدعہدی کی مثال کیا ہے ؟ فرمایا (کالتی نقضت غزلھا من بعد قوۃ انکاثا) اس عورت کی سی ہے جس نے بڑی جانفشانی سے سوت کا تا اور پھر خود ہی ٹکڑے ٹکڑے کر کے برباد کردیا۔ یعنی جب ایک شخص یا ایک گروہ کوئی معاہدہ کرتا ہے تو اس کی پختگی کے لیے بڑی بڑی باتیں کرتا ہے اور ہر طرح دوسرے فریق کو یقین دلاتا ہے۔ پھر اگر ایک بات اتنی کوشش کے بعد پختہ کی گئی ہے، تو کیونکر جائز ہوسکتا ہے کہ جس نے کل پختہ کی تھی وہی آج اسے اپنے ہاتھوں سے توڑ کر رکھ دے؟