سورة النحل - آیت 89

وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِي كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا عَلَيْهِم مِّنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَجِئْنَا بِكَ شَهِيدًا عَلَىٰ هَٰؤُلَاءِ ۚ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور جس دن ہم ہر امت میں ان پر انھی میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے اور تجھے ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے۔ اور ہم نے تجھ پر یہ کتاب نازل کی، اس حال میں کہ ہر چیز کا واضح بیان ہے اور فرماں برداروں کے لیے ہدایت اور رحمت اور خوش خبری ہے۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

آیت (٨٩) میں سلسلہ بیان نے یہ رخ اختیار کیا تھا کہ (نزلنا علیک الکتاب) ہم نے تجھ پر ایک کتاب نازل کی جو دین کی تمام باتیں واضح کرتی ہے اور مسلمانوں کے لیے ہدیات، رحمت اور بشارت ہے۔ لیکن وہ مسلمانوں کے لیے ہدایت، رحمت اور بشارت کیونکر ہوئی؟ اس طرح ہوئی کہ انہیں فلاح و سعادت کی راہ پر چلاتی ہے۔ بدعملیوں کی راہوں سے روکتی ہے۔ چنانچہ اس کے بعد ہی سلسلہ بیان مسلمانوں کی طرف متوجہ ہوگیا اور فرمایا (ان اللہ یامر بالعدل والاحسان) اللہ کا تمہارے لیے فرمان یہ ہے کہ عدل کو اپنا شیوہ بناؤ، نیک کرداری میں سرگرم رہو، قرابت والوں کے حسن سلوک کرو، فحش کاموں سے بچو، ہر طرح کی برائیوں سے اجتناب کرو، ظلم و زیادتی سے کبھی آلودہ نہ ہو۔ جو لوگ مسلمان ہوچکے تھے ان کے لیے اب آزمائش عقائد میں تھہ، اعمال میں تھی اس لیے اس آیت میں عملی زندگی کی تمام مہمات بیان کردیں، یہ گویا قرآن کے اس وصف کی تفسیر ہے جو پچھلی آیت میں بیان کیا گیا تھا کہ (تبیانا لکل شیء) اسی لیے مفسرین نے اسے جوامع آیات میں شمار کیا ہے۔