فَلَا تَضْرِبُوا لِلَّهِ الْأَمْثَالَ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
پس اللہ کے لیے مثالیں بیان نہ کرو۔ بے شک اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
آیت (٧٤) میں فرمایا : (لاتضربوا للہ الامثال) اپنے جی سے اللہ کے لیے مثالیں نہ گھڑو۔ انسان کی ساری درماندگی اس راہ میں یہ ہے کہ اپنے معیار خیال سے اللہ کا تصور آراستہ کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے مثالیں تراشتا ہے، حالانکہ اس کے سارے تصور، اس کے سارے قیاسات، اس کی ساری تمثیلیں، اس کے لیے ٹھوکروں پر ٹھوکریں اور گمراہیوں پر گمراہیاں ہوجاتی ہیں۔ وہ اپنی سوچی ہوئی تمثیلیوں میں جتنا بڑھتا جاتا ہے اتنا ہی حقیقت سے دور ہوتا جاتا ہے کیونکہ وہ جتنی بھی تمثیلیں بناتا ہے اپنے ادراک و احساسات کے اندر رہ کر بناتا ہے، اور ذات مطلق اس دائرہ کی رسائی سے ماوی ہے : اے بروں از وہم و قال و قیل من۔۔۔۔ خاک بر فرق من و تمثیل من !! جہاں تک تصور الہی کی تنزیہہ کا تعلق ہے قرآن کی دو چھوٹی چھوٹی آیتوں میں سب کچھ کہہ دیا گیا ہے جن میں سے ایک آیت یہ ہے دوسری (لیس کمثلہ شیء) تنزیہہ کے بارے میں تم جو کچھ بھی کہو اس سے زیادہ نہیں کہہ سکتے، اس کے لیے تمثیلیں نہ گھڑو۔ وہ ان ساری چیزوں میں سے کسی چیز کے بھی مثل نہیں ہے جس کا تم تصور کرسکتے ہو۔ لیکن اگر قرآن کے تصور الہی کی تنزیہہ کا یہ حال ہے تو پھر کیوں اس نے صفات کا اثبات کیا؟ صفات کے اثبات کا لازمی نتیجہ تشخص ہے اور تشخص پیدا ہوا تو اطلاق باقی نہ رہا اور اطلاق باقی نہیں رہا تو تنزیہہ بھی اپنی بلندی سے نیچے اتر آئی۔ اس لیے کہ اگر تنزیہہ کا مطلب یہ سمجھا جائے تو انسان کے تصور کے لیے کچھ باقی نہیں رہتا۔ خدا کا تصور محض ایک سلبی تصور ہوجاتا ہے۔ اور سلبی تصور سے خدا پرستی کی زندگی پیدا نہیں ہوسکتی۔ خدا کا ایسا تصور اس کی فطرت کے لیے ایک ناقابل برداشت بوجھ ہوجائے گا۔ وہ وجدانی طور پر ایک خالق و پروردگار ہستی کا یقین رکھتا ہے اور جب یقین رکھتا ہے تو جاگزیر ہے کہ اس کا تصور بھی کرے اور جب تصور کرے گا تو تشخص کے ساتھ ہی کرے گا۔ غیر مشخص اور سلبی حقیقت کا تصور اس کی فطری طاقت سے باہر ہے اور اگر بہ تکلف وہ ایسا تصور پیدا بھی کرنا چاہے تو یہ اس کے لیے کوئی زندہ اور عامل تصور نہیں ہوسکتا۔ یہ بات کہ اس کی فطرت میں ایک ایسی ہستی کا وجدانی اعتقاد موجود ہے اس بات کا بھی فطری ثبوت ہے کہ اسے اس کا تصور کرنا چاہیے۔ یعنی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ تصور کرے، وہ وجدانی طور پر مجبور ہے کہ تصور کرے لیکن جب وہ تصور کرے گا تو یہ ایک انسان ہی کا تصور ہوگا، ماورائے انسانیت تصور نہیں ہوگا اور انسانی تصور تشخص کی پرچھائیں سے منزہ نہیں ہوسکتا۔ اس تصور کا ولولہ انسان کی فطرت میں کیوں ابل رہا ہے اس لیے کہ اس کے معنوی ارتقا کے لیے ایک نصب العین کی ضرورت تھی اور یہ نصب العین اللہ کی ہستی کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ مخلوقات میں جتنی چیزیں ہیں سب اس سے پست ہیں۔ وہ بلند ہونے کے لیے ان کی طرف نہیں دیکھ سکتا۔ اسے ایک ایسی ہستی کی ضرورت ہے جو سب سے بلند تر ہو اور زیادہ سے زیادہ بلندیوں تک اسے کھینچنے والی ہو۔ یہ صرف اللہ کا تصور ہے۔ یہی تصور ہے جو اس کے لیے اڑنے اور اونچے ہونے کا ایک ایسا نصب العین بہم پہنچا دیتا ہے جس سے بلند تر کوئی نصب العین نہیں ہوسکتا اور یہاں جو کچھ ہے سب اس سے فروتر ہے، یہ اس کے آگے مقام انسانیت کی غیر محدود ترقیوں کی شاہراہ کھول دیتا ہے۔ پس ضروری ہے کہ وہ اپنے سامنے ایک تصور رکھے، اور تصور رکھے تو یہ ایک ایجابی تصور ہو۔ محض نفی و سلب نہ ہو، نفی و سلب اسے کچھ نہیں دے سکتا۔ اسے کھینچ نہیں سکتا، سے اپنی آغوش میں لے نہیں سکتا، اور اس کا وجدان ایک ایسی ہستی کے لیے تشنہ ہے جو دینے والی ہو، بلانے والی ہو، کھینچنے والی ہو، اپنے حسن و جمال کی صفتوں کے اندر سے جھانکنے والی ہو۔ اس کی پیاس صرف اس سے نہیں بجھ سکتی کہ اسے بتلا دیا جائے خدا کی ذات ایسی نہیں ہے، ایسی نہیں ہے، اس کی طلب و احتیاج تو کسی ایسے کو ڈھونڈ رہی ہے جو بتلائے میں ایسا ہوں، اور مجھ میں ایسی ایسی صفتیں ہیں۔ پھر تمام کائنات ہستی کی پکار کیا ہے جو انسان کے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے؟ اور خود اس کی ہستی کا ایک ایک لمحہ کیا کہہ رہا ہے؟ کیا ممکن ہے کہ انسان اس کی طرف سے کان بند کرلے؟ کیا ہوسکتا ہے کہ وہ آنکھیں کھولنے سے انکار کردے؟ یہاں کی ہر چیز گواہی دے رہی ہے کسی بنانے والے میں بنانے اور سنوارنے کی صفتیں ہیں اور اس کی صفتوں کے ہم نقش و نگار ہیں، انسان یہ سارے نقش و نگار دیکھتا ہے اور ان میں حقیقتیں پاتا ہے۔ پس ان کا تصور اسے کرنا ہی پڑے گا۔ وہ دیکھتا ہے کہ یہاں حسن و جمال ہے، اس لیے اسے تصور کرنا ہی پڑے گا کہ اس میں حسن و جمال ہے، وہ دیکھتا ہے کہ یہاں پروردگاری ہے، اس لیے اسے تصور کرنا ہی پڑے گا کہ وہ پروردگار ہے۔ پس اس راہ کی ٹھوکر اثبات صفات میں نہ ہوئی۔ اس میں ہوئی کہ صفات کیسی ہونی چاہیئں؟ ذہن انسانی نے جب کبھی نقشہ کھینچنا چاہا تو اپنی رسائی فکر کے مطابق تمثیلیں بنائین اور اسی میں گمراہ ہوا۔ انبیائے کرا کی دعوت کا مقصد یہ رہا ہے کہ اس گمراہی سے دنیا کو نجات دلائیں اور صفات الہی کا صحیح تصور پیدا کردیں قرآن کا تصور الہی اسی لیے تصور کی تکمیل ہے کہ اس نے تنزیہہ کا مقصد بھی پورا کردیا اور صفات الہی کا کامل نقشہ بھی کھینچ دیا۔ اس نے ایک طرف تو ہر طرح کے تمچل و تجسم کا دروازہ بند کردیا کہ (لا تضربوا للہ الامثال اور لیس کمثلہ شیء) اور دوسری طرف اس کی صفتوں سے بھی ہمیں آشنا کردیا جو تمام تر حسنی ہیں۔ یعنی حسن و خوبی کی صفتیں ہیں اور جنہیں ہم کائنات ہستی کے ایک ایک ذرہ سے پوچھ سکتے ہیں اور ایک ایک ذرہ کے منہ سے سن سکتے ہیں۔ (شھد اللہ انہ لا الہ الا ھو والملائکۃ والوا العلم قائما بالقسط لا الہ الا ھو العزیز الحکیم) اس کی تنزیہہ بھی کامل ہے کیونکہ تشبہ اور تجسم کی پرچھائیں بھی برداشت نہیں کرسکتی، اس کی بتلائی ہوئی صفتیں بھی اعلی ہیں، کیونکہ سرتاسر حسن، سرتاسر کبریائی، سرتاسر عظمت و جلال ہیں۔ اسی سورت کی آیت (٦٠) میں گزر چکا ہے : (للذین لایومنون بالاخرۃ مثل السواء وللہ المثل الاعلی) افسوس ہے کہ اس آیت کا مطلب لوگوں نے نہیں سمجھا، اس میں بھی یہی حقیقت واضح کی گئی ہے۔ قرآن اس سے نہیں روکتا کہ انسان خدا کے تصور کے لیے ایک بات دھیان میں لائے لیکن وہ بات کیسی ہونی چاہیے؟ یہیں اسے ہمیشہ ٹھوکر لگی۔ وہ اسے نہیں پاسکتا۔ وہ حسن و جمال، کبریائی و کمال اور علو و عظمت کی بات تھی لیکن اس نے گمراہی فکر سے بری باتیں، گری ہوئی باتیں، ناسزا باتیں گھڑ لیں، یعنی مثل السوء سے کام لیا۔ المثلی الاعلی نہ پاسکا۔ حالانکہ اللہ کے لیے جو بات ہوگی المثلی الاعلی ہی کی ہوگی، مثل السوء کی نہیں ہوسکتی۔ قرآن نے اسی المثل الاعلی کا جمال حقیقت نمایاں کردیا ہے۔ اور یہی المثل الاعلی ہے جسے سورۃ اعراف میں الاسماء الحسنی سے تعبیر کیا اور مثل السوء کے لیے الحاف دی الاسماء کی تعبیر اختیار کی : (وللہ الاسماء الحسنی فادعوہ بھا وذروا الذین یلحدون فی اسمائہ سیجزون ماکانوا یعملون) ایک دوسری جگہ فرمایا : (لہ الاسماء الحسنی یسبح لہ ما فی السموات والارض وھو العزیز الحکیم) اس کے لیے حسن و خوبی کی صفتیں ہیں اور آسمانوں میں اور زمین میں جتنی مخلوقات ہیں سب اس کی تسبیح کر رہی ہیں یعنی تمام کائنات ہستی ان صفتوں کی شہادت دے رہی ہے، آسمان و زمین کی ہر چیز ان صفتوں کا اعتراف ہے، ان صفتوں کی نمود ہے، سا کی پاکی و کبریائی کے اعلان میں تسبیح کی زبان ہے، تقدیس کی پکار ہے۔ بہرحال اثبات صفات ایک ایسی حقیقت ہے جس کی وجدانی طلب فطرت انسانی میں موجود ہے اور اس لیے اس حد تک تشخص کا ہونا فطری مطالبہ پورا کرنا ہے۔ اگر اس سے اعراض کیا جائے گا تو غیر فطری بات ہوجائے گی اور انسان کی وجدانی پیاس کبھی نہیں بجھے گی۔ ہندوستان کے فلسفہ ویدانت نے اور اس کے بعد بدھ مذہب کے حکما نے نفی صفات کا مسلک اختیار کیا اور تشخص کو مٹانا چاہا، لیکن عملا نتیجہ کیا نکلا؟ یہ نکلا کہ نہ صرف تشخص کی بلکہ تجسم تک کی لوگوں کو اجازت دے دینی پڑٰ، کیونکہ انہوں نے محسوس کیا کہ غیر مشخص تصور سے خدا پرستی کی پیاس بجھ نہیں سکتی اور ضروری ہے کہ فکر انسانی کے سامنے ایک چیز لائی جائے۔ْ اس کا وجدان بغیر اس کے مطمئن نہیں ہوسکتا کہ کوئی نہ کوئی صورت سامنے دیکھے، اگر صفات کی صورت نہ ہوگی تو پتھر کی مورتی تراش لے گا : کرے کیا کعبہ میں جو سر بت خانہ سے آگہ ہے۔۔۔۔ یہاں تو کوئی صورت بھی ہے واں اللہ ہی اللہ ہے !!! یا تو تنزیہہ میں اس قدر بلند ہونا چاہا تھا کہ اثبات صفات بھی ان پر شاق گزرا حتی کہ اس کے بھی روادار نہ ہوئے کہ اس کی طرف وہ کہہ کے اشارہ کریں کیونہ ہمارا وہ بھی تشخص کی آلودگی سے منزہ نہیں ہوسکتا۔ یا پھر تجسم کی پستی میں گرے تو ایسے گرے کہ نہ صڑف تشخص کو اس کی ساری تمثیلوں اور جسمانیتوں کے ساتھ جائز کردیا بلکہ اس کے سب سے زیادہ ادنی ور اسفل درجہ کی بھی اجازت دے دی، یعنی مورتی پوجا کی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ویدانت کی توحید وجودی کا مسلک اور بودھسٹ حکما کے سلب و نفی کا تصور فلسفہ کا ایک مذہب بن گیا لیکن انسان کا عملی مذہب نہ بن سکا۔ عملی مذہب کے لیے اصنام پرستی ہی اختیار کرنی پڑی۔ نفی صفات اور استغراق اطلاق کا یہی مسلک ہے جسے اصحاب حدیث نے تعطیل سے تعبیر کیا ہے۔ قرآن کی توحید تنزیہہ پر مبنی ہے، تعطیل پر نہیں ہے۔ تاریخ اسلام میں سب سے پہلے نفی صفات کی صڈا جہم بن صفوان نے بلند کی جس کی طرف جہمیہ منسوب ہیں پھر متکلمین و نظار کے مختلف گروہ اس سے کم و بیش متاثر ہوئے، باطنیہ کا مذہب اثبات و نفی بھی اسی پر مبنی تھا۔ یعنی وہ اثبات کے ساتھ نفی بھی کردیتے تھے، النور لانور اور الحکیم لاحکیم توجیہ اس کی یہ کرتے تھے کہ اثبات حقیقت صفات کے لیے ہے، نفی تشبہ کے لیے۔ اس آیت کے بعد دو مثالیں بیان کی ہیں : (ضرب اللہ مثلا عبد مملوکا) اور (وضرب اللہ مثلا رجلین احدھما ابکم) پہلی مثال میں فرمایا اگر تمہیں احتیاج ہو تو تم کس کے پاس جاؤ گے؟ ایک غلام کے پاس جو کسی دوسرے کے اختیار میں ہے اور خود کوئی اختیار نہیں رکھتا، یا اس کے پاس جو مالک و مختار ہے اور جس طرح چاہے اپنا مال خرچ کرسکتا ہے۔ کیا دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ ایک بے بس غلام اور ایک مالک و مختار آقا؟ اگر نہیں ہوسکتے تو اس سے بڑھ کر عقل کی ہلاکت اور کیا ہوسکتی ہے کہ تم اپنی حاجتوں اور مصیبتوں میں ان کے آگے جھکتے ہو جو خود اللہ کے بندے ہیں اور اپنی ساری احتیاجوں میں اس کی بخشائش کے محتاج، اور اس کی طرف سے گردن موڑ لیتے ہو جس کے اختیار میں سب کچھ ہے، اور کوئی نہیں جو اس کا ہاتھ پکڑنے والا ہو؟ دوسری مثال ایمان اور کفر کی مثال ہے، فرمایا فرض کرو دو آدمی ہوں۔ ایک گونگا بہرا، اپنے ساتھیوں کے لیے بوجھ، کوئی کام بھی اس سے بن نہ پڑے۔ دوسرا متکل اور رہنما۔ فلاح و کامیابی کی راہ چلنے والا اور دوسروں کو بھی راہ دکھانے والا، تو کیا ان دونوں کی حالت میں تمہیں کوئی فرق نہیں دکھائی دے گا؟ تمہاری نگاہ میں دونوں کا حکم ایک ہی ہوگا؟ اگر نہیں ہوگا اور تم بے اختیار بول اٹھو گے کہ کہاں ایک گونگا بہرا اور کہاں ایک گویا اور کافر فرما تو پھر تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم ایمان کی زندگی پر کفر کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو؟ ایمان کی زندگی کیا ہے؟ عقل و بصیرت کی زدندگی جو خدا کے دیے ہوئے حاسوں سے کام لیتی، خود بھی سدیھی راہ چلتی اور دوسروں کی بھی رہنمائی کرتی ہے۔ کفر کی زندگی کیا ہے؟ بہری گونگی زندگی، عقل و حواس تاراج کردینے والی، جس راہ میں قدم اٹھائے، کوئی خوبی کی بات حاصل نہ کرسکے۔ قرآن ہر جگہ ایمان کو عقل و بصیرت اور ہدایت و رہنمائی کی راہ قرار دیتا ہے اور کفر کو جہل و ہیچ کاری سے تعبیر کرتا ہے۔