وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي اللَّهِ مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ۖ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ
اور جن لوگوں نے اللہ کی خاطر وطن چھوڑا، اس کے بعد کہ ان پر ظلم کیا گیا، بلاشبہ ہم انھیں دنیا میں ضرور اچھا ٹھکا نادیں گے اور یقیناً آخرت کا اجر سب سے بڑا ہے۔ کاش! وہ جانتے ہوتے۔
آیت (٤١) میں جن مہاجرین کا ذکر کیا ہے اس سے مقصود ابی سینا کہ مہاجرین ہیں۔ فرمایا انہوں نے اللہ کی سچائی کی راہ میں اپنا گھر بار چھوڑا ہے اور ہجرت کی مصیبتیں برداشت کی ہیں تو ضروری ہے کہ اللہ ان کا مددگار ہو اور ان کے لیے دنیا میں اچھا ٹھکانا پیدا کردے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ابی سینا کا دار غربت ان کے لیے امن و عزت کا مہمان سرا بن گیا۔ یہ وہی ابی سینا ہے جس کے ایک سپہ سالار ابرہہ نے پچاس برس پہلے مکہ پر حملہ کیا تھا لیکن اب اسی مکہ کے مظلوموں کا اخلاص و محبت کے ساتھ استقبال کر رہا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ مظلومیت کی یہ ہجرت تبلیغ حق کی کامرانیوں کا ایک عجیب و غریب وسیلہ بن گئی۔ یعنی ابی سینا کے بادشاہ کا دل قبولیت حق کے لیے کھل گیا اور دعوت اسلام پر ایمان لے آیا۔ چنانچہ سورۃ مائدہ کی آیت (٨٣) میں اس کا ذکر گزر چکا ہے۔ قوانین الہی کی عجائب آفرینیوں میں سے ایک عجیب و غریب منظر ظلم یعنی اجسام کے سایے کا ہے۔ نظام شمسی کے تمام کرشمے اس چیز میں ہم دیکھ لیتے ہیں۔ یہ ہمارے جسم کے ساتھ ساتھ رہتا ہے اور ساتھ ساتھ چلتا ہے لیکن لاکھوں میل فاصلہ کی خبر دے دیتا ہے۔ سورج کا طلوع، عروج، زوال، غروب، ساری حالتیں ہم اس آئینہ میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ کبھی بڑھتا ہے، کبھی گھٹتا ہے، کبھی ابھرتا ہے، کبھی غائب ہوجاتا ہے، کبھی کھڑا ہوتا ہے، کبھی جھکتا ہے، کبھی داہنے ہوتا ہے، کبھی بائیں۔ اس کی ان تمام حالتوں کا قانون اس درجہ قطعی اس درجہ یکساں اس درجہ منظم ہے کہ اس میں فتور پڑجانے کا ہمیں وہم و گمان بھی نہیں ہوسکتا۔ جس وقت تک گھڑیاں ایجاد نہیں ہوئی تھیں یہی سایہ گھڑی کا کام دیتا تھا اور اسی سے دھوپ گھڑی بنی تھی۔ آج کل بھی میدانوں اور دیہاتوں میں جہاں گھڑیاں نہیں ہوتیں دہقان سایہ دیکھ کر معلوم کرلیتا ہے کہ کتنا دن چڑھ چکا ہے، کتنا ڈھل چکا ہے۔ سایہ جب مساوی ہوجائے تو دوپہر کا وقت ہے، جب گھٹنے بڑھنے لگے تو اس کی ہر مقدار گھڑی کی سوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن قوانین الہی کے احاطہ و نفاذ کا ذکر کرتے ہوئے سایے کی طرف توجہ دلاتا ہے اور کہتا ہے یہ تم سے دور نہیں۔ ہر وقت تمہارے جسم کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے ہمیشہ اس پر تمہاری نگاہیں رہتی ہیں، کیونکہ اسی سے وقت کا اندازہ لگایا کرتے ہو۔ پس غور کرو اس کی حقیقت کیا ہے ؟ کس طرح یہ شہادت دے رہا ہے کہ یہاں کی ہر چیز کسی مدبر و حکیم ہستی کے احکام کے آگے سربسجود ہے۔ اور اس نے جس چیز کے لیے جو حکم نافذ کردیا ہے، ممکن نہیں کہ اس کی تعمیل میں بال برابر بھی انحراف ہو۔ یہاں بھی آیت (٤٨) میں اسی حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے۔ چنانچہ اس کے بعد ہی فرمایا : وللہ یسجد ما فی السموات ومافی الارض من دابۃ۔ انسان میں مرد اور عورت کا امتیاز ہے۔ لوگوں نے خیال کیا کہ اسی طرح روحانی قوتوں میں بھی دونوں جنسیں ہونی چاہیں۔ مرد دیوتا ہیں، عورتیں بیبیاں ہیں۔ چنانچہ دنیا کی تمام اصنام پرست اقوام کی دیوبانیوں میں یہ خیال عام طور پر نمایاں رہا ہے۔ مشرکین عرب میں بھی یہ تخیل پیدا ہوگیا تھا۔ قبیلہ خزاعہ اور کنانہ کی نسبت بیان کیا گیا ہے کہ وہ فرشتوں کا تصور بیبیوں کی شکل میں کرتے تھے اور کہتے تھے یہ خدا کی بیٹیاں ہیں۔ قرآن نے جابجا یہ خیال نقل کیا ہے وار اسکی سخافت پر توجہ دلائی ہے۔ (یہاں (٥٧) میں بھی اسی طرف اشارہ ہے۔ وہ فرشتوں کو تو خدا کی بیٹیاں سمجھتے تھے، لیکن خود عورتوں کی جنس کے لیے ان کے تصورات کیا تھے؟ یہ کہ زیادہ سے زیادہ ذلیل و حقیر مخلوق ہے، جب کسی کے یہاں بیٹی پیدا ہوتی تو اسے بڑی غمگینی اور بدنصیبی کی بات سمجھتا۔ بعض قبائل جنہیں اپنے نسلی شرف کا بڑا گھمنڈ تھا بیٹی کے باپ ہونے میں ایسی ذلت سمجھتے کہ اکثر حالتوں میں اسے خود اپنے ہاتھ سے زندہ گاڑ کر مار ڈالتے۔ جب ان میں سے کسی کو بیٹی پیدا ہونے کی خبر ملتی تو مارے شرم کے لوگوں کے سامنے نہ آتا اور سوچنے لگتا کہ ذلت گوارا کر کر کے بیٹی والا بن جائے یا ایک باعزت آدمی کی طرح اسے زمین میں زندہ دفن کردے۔ یہاں ایک طرف تو ان کے عقیدے کی سخافت دکھلائی ہے کہ جس بات کو خود اپنے لیے زلت کی بات سمجھتے ہیں اسے خدا کے لیے تجویز کرنے میں انہیں باک نہیں۔ دوسری طرف اس گمراہی کا ابطال کیا ہے کہ عورت کی جنس کو جو مرد ہی کی طرح ایک انسانی جنس ہے زلیل و حقیر سمجھتے ہیں۔ حتی کہ اپنی اولاد کو خود اپنے ہاتھوں قتل کردینے کے لیے آمادہ ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ آیت (٥٩) میں فرمایا : (الاساء ما یحکمون) دیکھو کیا ہی برا فیصلہ ہے جو انہوں نے اس معاملہ میں کیا۔ مردوں کا عورتوں کے ساتھ معاملہ ظلم و معصیت کی ایک مسلسل سرگزشت ہے۔ اور اس سرگزشت کا ایک سب سے زیادہ وحشیانہ واقعہ دختر کشی کی رسم ہے۔ اسلام کا جب ظہور ہوا تو عرب کے اکثر قبیلوں میں یہ رسم اسی طرح جاری تھی جس طرح ہندوستان کی مختلف قوموں میں پچھلی صدی تک جاری رہ چکی ہے۔ لوگ اس پر فخر کرتے تھے اور کہتے تھے ہمارے قبیلہ کے افراد بیٹی کے باپ ہونے کا ننگ گوارا نہیں کرسکتے۔ لیکن اسلام نے نہ صرف یہ رسم مٹا دی بلکہ وہ ذہنیت بھی مٹا دی جو ان تمام وحشیانہ مظالم کے اندر کام کر رہی تھی۔ اس نے اعلان کیا کہ مرد اور عورت کا جنسی اختلاف کسی فضیلت اور محرومی کی بنیاد نہیں ہوسکتا۔ دونوں کو اللہ نے بحیثیت انسان ہونے کے ایک ہی درجہ میں رکھا ہے اور دونوں کے آگے یکساں طریقہ پر ہر طرح کی فضیلتوں کی راہ کھول دی ہے : (للرجال نصیب مما اکتسبوا وللنساء نصیب مما اکتسبن واسئلوا اللہ من فضلہ) سورۃ تکویر میں جہاں قیامت کے دن کی ہولناکیوں کا نقشہ کھینچا ہے وہاں پرسش اعمال میں سب سے زیادہ وہ نمایاں جگہ اسی ظلم کو دی ہے : (واذا الموءدۃ سئلت بای ذنب قتلت) انسان کے لیے اس بات کے تصور سے بڑھ کر اور کوئی تصور قدرتی اور حقیقی نہیں ہوسکتا کہ ایک خالق و پروردگار ہستی موجود ہے لیکن وہ ہستی کیسی ہے؟ اس کی صفتوں کا بھی تصور کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اور اگر کیا جاسکتا ہے تو وہ صفتیں کیا کیا ہیں اور کس نوعیت کی ہیں؟ یہاں سے انسانی عقل کی درماندگیاں شروع ہوجاتی ہیں اور پھر کوئی گمراہی ایسی نہیں ہے جس میں وہ گم ہوجانے کے لیے مستعد نہ ہوجاتا ہو۔ حتی کہ بعض اوقات بھٹکتے بھٹکتے اتنا دور چلا جاتا ہے کہ جس درجہ پر خود کھڑا ہے اس سے بھی خدا کا تصور نیچے گرا دیتا ہے : (ویجعلون للہ ما یکرھون) مشرکین عرب کی سخافت تصور کا ذکر کرنے کے بعد آیت (٦٠) میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔