إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَيْءٍ إِذَا أَرَدْنَاهُ أَن نَّقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ
ہمارا کہنا کسی چیز کو، جب ہم اس کا ارادہ کرلیں، اس کے سوا نہیں ہوتا کہ ہم اسے کہتے ہیں ہو جاتو وہ ہوجاتی ہے۔
آیت (٤٠) میں فرمایا تمہیں انسان کے دوبارہ زندہ ہونے پر اس لیے تعجب ہورہا ہے کہ اللہ کی قدرت کا صحیح اندازہ نہیں۔ تم اسی ترازو سے اس کے کام بھی تولنا چاہتے ہو جس سے اپنے کام تولا کرتے ہو۔ وہ کسی چیز کے ظہور میں لانے کے لیے نہ تو کسی سروسامان کا محتاج ہے نہ کسی دوسری ہستی کی موجودگی کا۔ صڑف اس کا ارادہ ہی ہر طرح کی علت ہے، ہر طرح کا سروسامان ہے، ہر طرح کا مواد ہے، وہ جب چاہتا ہے کہ ایک چیز ظہور میں آجائے تو بس اس کا چاہنا ہی سب کچھ ہے، جونہی اس کی مشیت کا فیصلہ ہوا، ہر چیز ظہور میں آگئی۔ یاد رہے کہ ان یقول لہ کن کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عربی لفظ کن جو کاف اور نون سے مرکب ہے بولنے آتا ہے۔ یا کلمہ خطاب و امر کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چیزیں وجود میں آجاتی ہیں بلکہ صاف مطلب یہ ہے کہ صرف اس کا ارادہ تخلیق کے لیے کافی ہے اور اس کی قدرت کا یہ حال ہے کہ جس بات کا حکم دے د یتا ہے وہ بجمرد حکم ظہور میں آجاتی ہے۔ وہ اپنے ارادہ اور حکم کے نفاز میں کسی دوسری چیز کا محتاج نہیں۔ پس ہمارے مفسرین نے یہاں جس قدر فلسفیانہ کاوشیں کی ہیں اور خطاب بہ معدوم وغیرہ کے سوالات اٹھائے ہیں سب بے محل اور بے معنی ہیں اور درخور التفات نہیں۔ غور کرو کس طرح چند لفظوں کے اندر اللہ کی خالقیت و قدرت کی کامل تصویر کھینچ دی ہے ؟ ایسی تصویر کہ اس سے زیادہ انسانی تصور نہ تو کچھ سوچ سکتا ہے نہ سوچ سکنے کی قدرت رکھتا ہے۔ اس نے تمام کارخانہ ہستی کیونکر پید اکیا؟ وہ جو کچھ پیدا کرنا چاہتا ہے کس طرح ظہور میں آجاتا ہے؟ اس طرح کہ اس کا حکم ہوتا ہے اور اس کا حکم ہی ساری علتوں کی علت اور سارے سببوں کا آخری سبب ہے۔ جب دشمنوں کا ظلم و تشدد اس حد تک پہنچ گیا کہ مسلمانوں پر زندہ رہنا دشوار ہوگیا تو پیغمبر اسلام نے اجازت دے دی کہ حبش (ابی سینا) کی طرف ہجرت کرجائیں، چنانچہ پہلے بارہ مرد اور چار عورتوں کا قافلہ مکہ سے نکلا جس کے رئیس حضرت عثمان بن عفان تھے اس کے بعد اور لوگ نکلے جن کی تعداد ٧٣ مردوں اور ١٨ عورتوں تک پہنچ گئی۔ تاریخ اسلام کی یہ پہلی ہجرت ہے، دوسری ہجرت یثرت کی ہجرت تھی۔