يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى ۖ الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنثَىٰ بِالْأُنثَىٰ ۚ فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ۗ ذَٰلِكَ تَخْفِيفٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ ۗ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر مقتولوں میں بدلہ لینا لکھ دیا گیا ہے، آزاد (قاتل) کے بدلے وہی آزاد (قاتل) اور غلام (قاتل) کے بدلے وہی غلام (قاتل) اور (قاتلہ) عورت کے بدلے وہی (قاتلہ) عورت (قتل) ہوگی، پھر جسے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ بھی معاف کردیا جائے تو معروف طریقے سے پیچھا کرنا اور اچھے طریقے سے اس کے پاس پہنچا دینا (لازم) ہے۔ یہ تمھارے رب کی طرف سے ایک قسم کی آسانی اور ایک مہربانی ہے، پھر جو اس کے بعد زیادتی کرے تو اس کے لیے درد ناک عذاب ہے۔
قاص کا حکم اور اس سلسلہ میں ان مفاسد کا ازالہ جو اس بارے میں پھیلے ہوئے تھے۔ انسانی مساوات کا اعلان اور نسل و شرف کے تمام امتیازات سے انکار جو لوگوں نے بنا رکھے ہیں اور جن کی وجہ سے انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں۔ آزاد ہو یا غلام، مرد ہو یا عورت، بڑا ہو یا چھوٹا، وضیع ہو یا شریف۔ انسان ہونے کے لحاظ سے سب برابر ہیں۔ اس لیے قصاص میں کوئی امتیاز تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ اگر مقتول کے ورثا خوں بہا لینے پر راضی ہوجائیں تو قاتل کی جان بخشی ہوسکتی ہے قصاص میں اگرچہ جان کی ہلاکت ہے مگر اس لیے ہے تاکہ زندگی کی حفاظت کی جائے۔ پس جب مقصود اصلی حفظ نفس ہوا، نہ کہ قتل نفس تو ظاہر ہے کہ اسے قتل نفس کا ذریعہ بنانا کیونکر جائز ہوسکتا ہے۔