وَإِنَّا لَنَحْنُ نُحْيِي وَنُمِيتُ وَنَحْنُ الْوَارِثُونَ
اور بے شک ہم، یقیناً ہم ہی زندہ کرتے اور مارتے ہیں اور ہم ہی وارث ہیں۔
اس کے بعد فرمایا : ہم ہی ہیں کہ جلاتے ہیں اور موت طاری کرتے ہیں اور اس کا علم رکھتے ہیں کہ کون پہلے آنے والوں میں ہوئے کون پیچھے آنے والوں میں۔ یعنی جس طرح ہم نے تمام چیزوں کی تقدیر کردی ہے یعنی مقررہ اندازہ ٹھہرا دیا ہے اسی طرح موت و حیات کا بھی ایک خاص اندازہ ٹھہرا دیا ہے اور قوموں کے تقدم و تاخر کے لیے بھی مقررہ اندازہ ہے۔ ہر ہستی جو پیدا ہوتی ہے اپنے مقررہ اندازہ کے مطابق پیدا ہوتی ہے اور ہستی جو مرتی ہے مقررہ اندازہ کے مطابق مرتی ہے، تقدیر اشیا و اجسام کا قانون عالمگیر قانون ہے۔ ہستی کا کوئی گوشہ نہیں جو اس سے باہر ہو، یہاں سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ قرآن میں قدر اور تقدیر کا مطلب کیا ہے ؟ نیز ان تمام غلط فہمیوں کا ازالہ ہوگیا جو اس بارے میں پھیلی ہوئی ہیں۔