وَأَرْسَلْنَا الرِّيَاحَ لَوَاقِحَ فَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَسْقَيْنَاكُمُوهُ وَمَا أَنتُمْ لَهُ بِخَازِنِينَ
اور ہم نے ہواؤں کو بار آور بناکر بھیجا، پھر ہم نے آسمان سے پانی اتارا، پس ہم نے تمھیں وہ پلایا اور تم ہرگز اس کا ذخیرہ کرنے والے نہیں۔
پھر اس کے بعد بارش کی مثال دے کر مزید وضاحت فرما دی۔ فرمایا بارش زمین کی شادابی اور روئیدگی کا ذریعہ ہے۔ اگر ہی نہ ہو تو زمین کی روئیدگی بھی نہ ہو۔ لیکن دیکھو، کس طرح یہ معاملہ ظہور میں آتا ہے اور کس طرح مقررہ اندازوں اور پیمانوں کا ایک پورا نظام کام کررہا ہے؟ پہلے سمدنر سے بھاپ اٹھتی ہے، وہ پانی کے ذروں سے باردار ہو کر (یعنی انہیں اپنے اندر لے کر) بلندی کی طرف چڑھتی ہے، پھر بلندی میں ابر کی چادریں بنتی ہیں اور چادریں فضا میں پھیل جاتی ہیں، پھر وہی چادریں بارش کے قطرے بن کر گرنے لگتی ہیں اور زمین کے ایک ایک ذرے کو شاداب کردیتی ہیں، تم نے پانی کے ذخیرے جمع کر کے نہیں رکھے تھے لیکن آسمان جمع کرتا رہتا ہے اور پھر ٹھیک ٹھیک تمہاری احتیاج کے مطابق مطلوبہ مقدار تمہیں بخش دیتا ہے۔ یہ بات کے پانی کے جمع ہونے اور ایک خاص ترتیب اور اندازہ کے ساتے برستے رہنے کا ایک پورا کارخانہ بنا ہوا ہے اور وہ زمین کی احتیاج کے ٹھیک ٹھیک مطابق ہے، یہاں استدلال کا اصلی نقطہ ہے، کیونکہ تقدیر و نطم کی یہ حالت بغیر اس کے نہیں ہوسکتی کہ ربوبیت کا کوئی ارادہ پس پردہ کام کررہا ہو۔ اسی حقیقت کو ہم نے تفسیر سورۃ فاتحہ میں نظام ربوبیت سے تعبیر کیا ہے اور ضروری ہے کہ اس پر نظر ڈال لی جائے۔