أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللَّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ
کیا تو نے ان لوگوں کی طرف نہیں دیکھا جنھوں نے اللہ کی نعمت کو ناشکری سے بدل دیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں لا اتارا۔
اس کے بعد آیت (٢٨) میں قریش مکہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ملک کی ریاست و پیشوائی کی باگ انہی کے ہاتھ میں تھی اور عامۃ الناس انہی کے پیچھے چلتے تھے۔ فرمایا ان کی محرومی دیکھو کہ کس طرح اللہ کی نعمت کی ناشکری کر رہے ہیں۔ اور کلمہ طیبہ کی جگہ کلمہ خبیچہ کو اپنا شعار بنا لیا ہے؟ اللہ نے انہیں قوم کی پیشوائی دی تھی، پس ان کا فرض تھا کہ دعوت حق کی قبولیت میں سب سے آگے ہوتے اور قوم کی سچی رہنمائی کرتے مگر انہوں نے استبدال نعمت کی راہ پسند کی۔ خود بھی گمراہ ہوئے اور اپنی قوم کو بھی گمراہی میں دھکیل دیا۔ قریش مکہ کے کفران نعمت کے ذکر کے بعد ہی روئے سخن مومنوں کی طرف متوجہ ہوگیا ہے۔ آیت (٣١) میں فرمایا : انہیں چاہیے کہ نعمت الہی کی قدر بجا لائیں اور ناشکری سے بچیں۔ اس شکر گزاری نعمت کے سب سے بڑے اعمال کون سے ہیں؟ فرمایا : قیام صلوۃ اور انفاق فی سبیل اللہ۔ ان دو عملوں میں سرگرم رہیں۔