أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے ایک پاکیزہ کلمہ کی مثال کیسے بیان فرمائی (کہ وہ) ایک پاکیزہ درخت کی طرح (ہے) جس کی جڑ مضبوط ہے اور جس کی چوٹی آسمان میں ہے۔
آیت (٢٤) قرآن کے مہمات معارف میں سے ہے۔ لیکن افسوس ہے ہمارے مفسروں کو اس کی مہلت نہ ملی کہ اس کے حقائق کی وسعت کا مشاہدہ کرسکتے۔ فرمایا : عجائب آباد ہستی کا کوئی گوشہ دیکھو۔ تمہیں دو طرح کی باتیں نظر آئیں گی، ایک کو قرار ہے، دوسری کو قرار نہیں۔ ایک میں جماؤ ہے، دوسری میں جماؤ نہیں، ایک اس لیے ہے کہ پھلے پھولے، دوسری اس لیے ہے کہ پامال ہو، پہلی کلمہ طیبہ ہے، دوسری کلمہ خبیثہ ہے، یعنی پہلی اچھائی ہے، پاکیزگی ہے، نفع و فیضان ہے، دوسری برائی ہے، گندگی ہے، ضرر و نقصان ہے۔ پہلی کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھا درخت، اچھے درخت کی خصوصیات کیا ہوتی ہیں؟ جڑ کی مضبوطی کہ اکھڑنے والی نہیں، شاخوں کی بلندی کہ جھکنے والی نہیں۔ دوسری کی مثال ایسی ہے جیسے ایک نکما درخت زمین میں جگہ پکڑ نہیں سکتا، ٹہنیاں معدوم، پھل نابود، جب چاہو پکڑ کے کھینچ لو، جڑ سمیت اکھڑ آئے۔ اس کے بعد فرمایا اللہ کا قانون یہ ہے کہ جو ایمان لاتے ہیں وہ انہیں جمنے والی اور مضبوط باتوں کے ساتھ جماؤ دے دیتا ہے۔ ان کی یہ خصوصیت دنیا کی زندگی میں بھی نمایاں ہوتی ہے اور آخرت میں بھی نمایاں ہوگی، لیکن جو لوگ ظلم و نافرمانی کی راہ اختیار کرتے ہیں انہیں یہ بات نہیں مل سکتی، ان پر جماؤ اور استقرار کی راہ بند ہوجاتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہل ایمان کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کی ساری باتیں جماؤ اور مضبوطی کی باتیں ہوتی ہیں۔ ٹلنے والی، اکھڑ جانے والی اور اپنی جگہ سے ہل جانے والی نہیں ہوتیں۔ ان کا اعتقاد، ان کا عمل، ان کا طور طریقہ، ان کے دلائل شواہد، ان کے تمام کام القول الثابت ہوتے ہیں اور ان کی مثال شجرہ طیبہ کی ہوتی ہے لیکن جو لوگ ایمان حق سے محروم ہیں ان کی کوئی بات بھی القول الثابت کی بات نہیں ہوسکتی۔ ان کی مثال شجرہ خبیثہ کی ہوتی ہے کہ : (مالھا من قرار)