وَلَوْ أَنَّ قُرْآنًا سُيِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ أَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الْأَرْضُ أَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتَىٰ ۗ بَل لِّلَّهِ الْأَمْرُ جَمِيعًا ۗ أَفَلَمْ يَيْأَسِ الَّذِينَ آمَنُوا أَن لَّوْ يَشَاءُ اللَّهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِيعًا ۗ وَلَا يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُوا تُصِيبُهُم بِمَا صَنَعُوا قَارِعَةٌ أَوْ تَحُلُّ قَرِيبًا مِّن دَارِهِمْ حَتَّىٰ يَأْتِيَ وَعْدُ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ
اور واقعی اگر کوئی ایسا قرآن ہوتا جس کے ذریعے پہاڑ چلائے جاتے، یا اس کے ذریعے زمین قطع کی جاتی، یا اس کے ذریعے مردوں سے کلام کیا جاتا۔ بلکہ کام سارے کا سارا اللہ کے اختیار میں ہے، تو کیا جو لوگ ایمان لائے ہیں مایوس نہیں ہوگئے کہ اگر اللہ چاہے تو یقیناً سب کے سب لوگوں کو ہدایت دے دے، اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، ہمیشہ اس حال میں رہیں گے کہ انھیں اس کی وجہ سے جو انھوں نے کیا، کوئی نہ کوئی سخت مصیبت پہنچتی رہے گی، یا ان کے گھر کے قریب اترتی رہے گی، یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آجائے۔ بے شک اللہ وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔
آیت (٣١) میں یہ حقیقت واضح کی کہ اللہ کی کتاب ہدایت خلق کے لیے نازل ہوتی ہے۔ عجائب آفرینیوں کے لیے نازل نہیں ہوئی۔ اگر کوئی کتاب اس لیے نازل ہوئی ہوتی کہ پہاڑوں کو چلا دے اور مردوں سے صدائیں نکال دے تو تم پر بھی ایسی ہی چیز اترتی، لیکن نہ ایسا ہوا ہے نہ اب ہوگا۔ اس طرح کی عجائب آفرینیوں کی فرمائش اس بات کی دلیل ہے کہ دلوں میں سچائی کی طلب نہیں، اگر طلب ہوتی تو پہاڑوں کے چلنے کا انتظار نہ کرتے۔ یہ دیکھتے کہ انسانوں کے دلوں کو کس راہ چلاتی ہے اور مردہ جسموں کی جگہ مردہ روحوں کو کس طرح زندہ کردیتی ہے ؟