أَفَمَن يَعْلَمُ أَنَّمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ أَعْمَىٰ ۚ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ
پھر کیا وہ شخص جو جانتا ہے کہ بے شک جو کچھ تیرے رب کی جانب سے تیری طرف اتارا گیا وہی حق ہے، اس شخص کی طرح ہے جو اندھا ہے؟ نصیحت تو عقلوں والے ہی قبول کرتے ہیں۔
آیت (١٩) میں فرمایا : جسے حق کا علم و عرفان حاصل ہوگیا اور جس نے جان لیا کہ یہ بات سچائی ہے یہ سچائی نہیں، کیا اس کا اور اس آدمی کا ایک ہی حکم ہوسکتا ہے جو تاریکی میں ہے اور حق کے مشاہدہ سے اندھا ہورہا ہے ؟ یعنی پہلا تو علم و بصیرت پیش کر رہا ہے۔ دوسرے کے پاس سکے سوا کچھ نہیں کہ کہتا ہے مجھے دکھائی نہیں دیتا۔ پس پہلے کی جگہ علم کی ہوئی۔ دوسرے کی جہل و کوری کی ہوئی، دونوں کیسے برابر ہوسکتے ہیں؟ (انما یتذکر اولوا الالباب) نصیحت پذیر وہی ہوسکتے ہیں جو اصحاب دانش ہیں۔ جنہوں نے دانش و فہم سے منہ موڑ لیا ان سے کوئی توقع نہیں۔ اس کے بعد ان لوگوں کے اعمال گنائے ہیں جنہوں نے احکام حق قبول کیے اور دنیا کے لیے نافع ہوگئے۔ یہ اعمال کیا کیا ہیں؟ (ا) اللہ کی بندگی کا عہد پورا کرتے ہیں، اپنی عبودیت میں سچے اور کامل ہیں۔ (ب) اللہ نے جو رشتے جوڑد یے ہیں انہیں ظلم و ناانصافی سے توڑتے نہیں بلکہ ہر رشتہ کا پاس کرتے اور ہر علاقہ کا حق ادا کرتے ہیں۔ اس عمل میں تمام حقوق العباد آگئے جس طرح پہلی بات میں حقوق اللہ آگئے ہیں۔ (ج) آخرت کی فکر سے بے پروا نہیں ہوتے، جو کچھ کرتے ہیں، اس میں خوف آخرت کی کھٹک موجود ہوتی ہے، وہ یقین رکھتے ہیں کہ کسی کے آگے ایک دن حساب دینا ہے اور حساب کی سختی پیش آنے والی ہے۔ (د) اللہ کی محبت میں ہر طرح کی ناگوار حالتیں صبر و ثبات کے ساتھ جھیل لیتے ہیں۔ شدتوں اور محنتوں سے منہ نہیں موڑتے۔ آزمائشوں کو پیٹھ نہیں دکھاتے۔ (ہ) نماز اس کی ساری شرطوں کے ساتھ قائم رکھتے ہیں َ (و) جو کچھ کماتے ہیں اسے صرف اپنے نفس ہی پر خرچ نہیں کرتے، دوسروں پر بھی خرچ کرتے ہیں۔ اور ہر حال میں خرچ کرتے ہیں، کھلے طور پر بھی، پوشیدہ طور پر بھی۔ (ز) بدی کے بدلے بدی کرنا ان کا شیوہ نہیں، کوئی ان کے ساتھ کتنی ہی برائی کرے یہ بھلائی ہی سے پیش آئیں گے۔