لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ ۗ وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ ۚ وَمَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَالٍ
اس کے لیے اس کے آگے اور اس کے پیچھے یکے بعد دیگرے آنے والے کئی پہرے دار ہیں، جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ بے شک اللہ نہیں بدلتا جو کسی قوم میں ہے، یہاں تک کہ وہ اسے بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے اور جب اللہ کسی قوم کے ساتھ برائی کا ارادہ کرلے تو اسے ہٹانے کی کوئی صورت نہیں اور اس کے علاوہ ان کا کوئی مددگار نہیں۔
ہدایت و شقاوت کا یہ اندازہ یعنی مقررہ قانون کیا ہے؟ آیت (١١) میں فرمایا عمل اور صلاحیت عمل کا قانون ہے۔ یہی ایک کے بعد ایک آنے والی قوتیں ہیں جو حکم الہی سے انسان کی حفاظت کرتی ہیں۔ یہ اس کے گزشتہ اعمال ہیں جن سے اس کا حال پید اہوتا ہے اور حال کے اعمال ہیں جو اس کا مستقبل بناتے ہیں۔ پھر اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا خدا کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت نہ بدل ڈالے، یعنی اصل اس بارے میں خود انسان کا عمل ہے۔ وہ جیسی حالت چاہے اپنے عمل اور صلاحیت عمل سے حاصل کرلے سکتا ہے۔ اگر ایک قوم بدحال ہے وا وہ اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کرلیتی ہے جس سے خوشحالی پیدا ہوسکتی ہے تو خدا کا قانون یہ ہے کہ یہ تبدیلی فورا اس کی حالت بدل دے گی۔ اور بدحالی کی جگہ خوشحالی آجائے گی۔ اسی طرح خوشحالی سے بدحالی کا تغیر بھی سمجھ لو۔ پھر فرمایا جب ایک قوم نے اپنی عملی صلاحیت کھو دی اور اس طرح تبدیل حالت کی مستحق ہوگئی تو ضروری ہے کہ اسے برائی پہنچے، یہ برائی کبھی ٹل نہیں سکتی کیونکہ یہ خود خدا کی جانب سے ہوتی ہے، یعنی اس کے ٹھہرائے ہوئے قانون کا نفاذ ہوتا ہے اور خدا کے قانون کا نفاذ کون ہے جو روک سکے اور کون ہے جو کسی کو اس کی زد سے بچا سکے ؟ لیکن یہ برائی جو پہنچتی ہے تو کیا اس لیے پہنچتی ہے کہ اس نے برائیوں کا سامان کردیا ہے ؟ آیت (١٢) میں فرمایا کہ نہیں، اس نے جو کچھ بھی کیا ہے وہ بجز اچھائی اور خوبی کے اور کچھ نہیں ہے، لیکن اچھائی اور کو بی کی بڑی سے بڑی بات بھی تمہاری عاجز اور درماندہ نگاہوں کے لیے خوف و دہشت کی ہولناکی بن جاتی ہے۔ تم اپنی حالت اور اضافت کے لحاظ سے سمجھنے لگتے ہو کہ برائی ہے اور تمہارے لیے برائی ہو بھی جاتی ہتے لیکن اس کے لیے کہ وہ فی نفسہ برائی ہے بلکہ اس لیے کہ تمہاری حالت اور اضافت کے لحاظ سے برائی ہوگئی : کفر ہم نسبت بہ خالق حکمت ست۔۔۔۔۔ چوں بہ ما نسبت کنی کفر آفت ست یہ مقام تشریح طلب ہے اور تشریح کے لیے تفسیر فاتحہ ما مبحث برہان رحمت دیکھنا چاہیے۔ چنانچہ اس حقیقت کی وضاحت کے لیے ایک ایسی مثال بیان کی جو ہر انسان کے علم و مشاہدہ میں ہمیشہ آتی رہتی ہے۔ فرمایا بجلی کا چمکنا مایوسیوں کے لیے پیام امید ہوتا ہے۔ اگر نہ چمکے تو باران رحمت کے ظہور کا پیام بھی نہ ملے، لیکن تمہارے لیے یہ معاملہ خوف و امید کا معاملہ بن گیا۔ بارش کی امید سے خوش ہوتے ہو، لیکن ساتھ ہی بجلی کی تیزی سے ڈرنے بھی لگتے ہو۔ پھر وہی بجلی جو زمین کے لیے زندگیوں کا پیام ہے جب کسی انسان پر گرتی ہے تو اس کے لیے موت کا پیام بن جاتی ہے۔ اسی طرح بادل کا گرجنا تمہارے لیے سرتاسر دہشت و ہولناکی ہے حالانکہ وہ فی الحقیقت ہولناکی نہیں ہے۔ سرتاسر خدا کی محمودیت کا اعلان ہے۔ وہ گرج گرج کر اس کی ستائیشوں کا اعلان کرتا، اس کی تقدیس و تسبیح میں ربط اللسان ہوتا ہے۔ فرشتے اس کے خوف سے نہیں ڈرتے، خدا کے خوف سے ترساں رہتے ہیں۔ مگر تمہارے لیے وہ کائنات جو کی سب سے بڑی ہولناکی ہوگئی ہے۔ وھم یجادلون فی اللہ۔ یعنی اللہ کی قدرت و حکمت کی یہ نشانیاں ہمیشہ انسان کے علم و مشاہدہ میں آتی رہتی ہیں۔ اس پر بھی اس کی غفلت کا یہ حال ہے کہ اللہ کی ہستی اور اس کی یگانگت کے بارے میں ہمیشہ جھگڑتا رہتا ہے گویا یہ حقیقتیں ثابت نہیں، یہ نشانیاں کبھی ظہور ہی میں نہیں آئیں۔ قرآن کا عام اسلوب بیان یہ ہے کہ توحید ربوبیت و خالقیت سے توحید الوہیت پر استدلال کرتا ہے۔ چنانچہ یہاں بھی آیت (١٤) سے سلسلہ بیان اسی طرف پھر گیا ہے۔ فرمایا عبودیت کی سچی پکار رہی ہے جس کا خطاب اللہ سے ہو، جو لوگ اس کے سوا دوسروں کو پکارتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی مٹھی میں پانی بند کرنا چاہے اور اسے اپنے تشنہ لبوں تک لے جانا چاہے۔ معلوم ہے کہ وہ اپنی کوشش میں کبھی کامیاب نہ ہوگا، اس کی کوششیں بھٹک بھٹک کر رہ جائیں گی۔