لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ ۗ مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَىٰ وَلَٰكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
بلاشبہ یقیناً ان کے بیان میں عقلوں والوں کے لیے ہمیشہ سے ایک عبرت ہے، یہ ہرگز ایسی بات نہیں جو گھڑ لی جائے اور لیکن اس کی تصدیق ہے جو اس سے پہلے ہے اور ہر چیز کی تفصیل ہے اور ان لوگوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے جو ایمان رکھتے ہیں۔
قرآن کے اوصاف اربعہ : آخری آیت میں فرمایا : قرآن انسان کی بناوٹ نہیں ہے بلکہ وحی الہی کی سچائی ہے، اور پھر اس کے چار وصف بیان کیے ہیں جو کبھی کذب و افتراء کے اوصاف نہیں ہوسکتے : اولا : وہ پچھلی صداقتوں کی تصدیق ہے، اگر بناوٹ ہوتی تو پچھلی کڑیوں کے ساتھ اس طرح نہ جڑ جاتی گویا ایک زنجیر کی مختلف قدرتی کڑیاں ہیں اور ہر کڑی دوسری کڑی کو سہارا دے رہی ہے۔ ثانیا : ارباب یقین کے لیے اس میں دین کی ساری باتوں کی تفصیل ہے۔ یعنی ہر بات اس طرح الگ الگ کر کے بیان کردی گئی ہے کہ شبہ و التباس کی کوئی گنجائش نہیں رہی ہے۔ ثالثا : ارباب یقین کے لیے سرتاسر رہنمائی ہے، یعنی انسان کو کامیابی و سعادت کی منزلوں تک پہنچاتی اور ہر طرح کی گمراہیوں سے بچاتی ہے۔ رابعا : ارباب یقین کے لیے رحمت ہے، یعنی ہر طرح کی شقاوتوں اور نامرادیوں سے نجات دلانے ولی ہے۔ سورۃ یوسف کے مواعظ و حکم : سورت کی ضروری تشریحات ختم ہوچکیں لیکن ضروری ہے کہ اب حضرت یوسف کی سرگزشت پر بحیثیت مجموعی ایک نظر ڈال لی جائے تاکہ اس کی موعظتیں اور عبرتیں پوری وضاحت کے ساتھ واضح ہوجائیں۔ اس سلسلہ میں حسب ذیل امور قابل غور ہیں : مصری تمدن کا عروج : حضرت مسیح سے تقریبا دو ہزار سال پہلے دنیا کے نقشہ کا یہ حال تھا کہ سرزمین مصر وقت کے تہذیب و تمدن کا مرکز بن چکی تھی لیکن اس کے اطراف و جوانب کی قومیں ابھی تمدن و حضارۃ سے آشنا نہیں ہوئی تھیں اور صحرا نشینی و بدویت کی زندگی بسر کر رہی تھیں۔ مصر سے ایک قریب تر علاوہ وہ تھا جو آگے چل کر فلسطین کے نام سے مشہور ہوا اور جسے خاکنائے سینا نے سرزمین افریقہ سے ملا دیا ہے۔ اس علاقہ کی تمام پچھلی آبادیاں مٹ چکی تھیں، اب محض ایک صحرائی علاقہ تھا جو مویشی کے لیے چراگاہوں کا کام دیتا تھا اور مختلف بدوی قبائل وہاں بود و باش رکھتے تھے، انہی قبائل میں ایک چھوٹا سا قبیلہ حضرت ابراہیم کے خاندان کا بھی تھا۔ حضرت ابراہیم کا قبیلہ اور عہد الہی : حضرت ابراہیم کا ظہور تمدن قدیم کے ایک دوسرے مرکز یعنی سرزمین دجلہ و فرات میں ہوا تھا، انہوں نے وہاں سے ہجرت کی اور کنعان میں مقیم ہوگئے، کنعان سے مقصود وہ علاقہ ہے جو بحر میت کی مغربی جانب واقع ہے اور دریائے یرون سے سیراب ہوتا ہے۔ تورات میں ہے کہ انہوں نے یہ علاقہ وحی الہی سے منتخب کیا تھا اور اللہ نے فرمایا تھا تو جس جگہ کھڑا ہے اس کے چاروں طرف دیکھ، یہ تمام ملک میں تجھے اور تیری نسل کو دوں گا اور تیری نسل کو میں خاک کے ذروں کی مانند بنا دوں گا، اگر کوئی خاک کے ذروں کو گن سکتا ہے تو تیری نسل بھی گن لی جائے گی۔ (پیدائش : ١٥: ١٣) قرآن نے بھی جابجا اس بشارت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جب حضرت ابراہیم یہاں مقیم ہوگئے تو وقتا فوقتا انہیں اور بشاریں بھی ملتی رہیں، ان تمام بشارتوں کا ماحصل یہ تھا کہ اللہ نے انہیں امتوں کا پیشوا، نسلوں کا مورث اور بادشاہوں کا جد بنایا ہے اور ان کی نسل کو اپنی برکتوں کے لیے چن لیا ہے جب تک ان کی نسل ظلم و ضلالت سے آلودہ نہ ہوگی وعدہ کی برکتوں کی مستحق رہے گی۔ یہ بشارتیں اس خاندان میں اللہ کا عہد سمجھی جاتی تھیں۔ یعنی اللہ کا وعدہ جو کبھی ٹل نہیں سکتا، خاندان کا ہر بزرگ اسے محفوظ رکھتا ہے اور پھر اپنے وارث کو اس کی وصیت کرتا، یہ عہد دو باتوں پر مشتمل تھا، ایک یہ کہ نسل ابراہیمی اللہ کے دین پر قائم رہے گی اور اس کی دعوت دے گی، دوسری یہ کہ اللہ اسے برکت دے گا اور اس کی دعوت کا میاب ہوگی، قرآن نے ان تمام بشارتوں کا جابجا ذکر کیا ہے، چنانچہ سورۃ بقرہ کی آیت (١٢٤) اور ہود کی آیت (٧١) میں دو بشارتیں گزر چکی ہیں۔ تورات سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ ایک موقع پر حضرت ابراہیم کو ایک خاص واقعہ کی خبر دی گئی تھی یعنی یہ کہ تیری اولاد ایک ایسے ملک میں جائے گی جو ان کا ملک نہ ہوگا۔ وہاں لوگ اسے غلام بنا لیں گے اور وہ چار سو برس تک وہاں رہے گی۔ (پیدائش : ١٣: ١٥) حضرت ابراہیم سے حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق پیدا ہوئے، حضرت اسماعیل حجاز میں بس گئے اور حضرت اسحاق کنعان میں خاندان کے جانشین ہوئے، حضرت اسحاق سے یعقوب پیدا ہوئے، یہ پہلے حاران گئے تاکہ اپنی خالہ زاد بہن سے نکاح کریں، پھر بیس برس کے بعد کنعان واپس آئے اور وہیں مقیم ہوگئے، تورات میں ہے کہ اللہ نے نسل ابراہیم کا عہد ان سے تازہ کیا تھا اور قرآن اس کی تصدیق کرتا ہے۔ فلسطین کے تمام علاقہ کی طرح حضرت یعقوب کے خاندان کی زندگی بھی بالکل بدویانہ زندگی تھی، مویشی چراتے تھے، اور ان کے گوشت، اون اور دودھ پر گزران کرتے تھے۔ مصریوں کا غرور تمدن : لیکن اس علاقہ سے تھوڑے فاصلہ پر مصر کی سرزمین تمدن و حضارۃ میں شہرہ آفاق ہورہی تھی اور ایک بڑی مملکت کی پائے گاہ تھی، اس کا دار الحکومت رعمسیس وقت کے علوم و صنائع کا مرکز تھا اور وہاں کے باشندوں میں شہریت و امارت کی خصوصیتیں نشو ونما پاچکی تھیں، جیسا کہ قاعہد ہے مصر کے لوگ اپنے آپ کو متمدن اور ترقی یافتہ سمجھتے اور اطراف و جوانب کے بدویوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے۔ خصوصا کنعانی اور عبرانی ان کی نگاہوں میں بڑے ہی زلیل تھے، وہ انہیں چرواہا کہہ کر پکارتے اور اس قابل نہ سمجھتے کہ اپنی مجلسوں میں جگہ دیں، یہ بات بھی ان میں عام تھی کہ کوئی مصرنی کنعانی کے ساتھ ایک دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا نہ کھاتا۔ (پیدائش : ٣٣: ٤٣) اور مصر کے دیہاتی بھی انہیں اس درجہ برا سمجھتے کہ اپنی آبادیوں میں ان کا بسنا گوارا نہ کرتے۔ (پیدائش : ٣٤: ٤٦) قدرت الہی کی کرشمہ سازی : لیکن قدرت الہی سے ایک عجیب و غریب واقعہ آیا، کنعان کے اس بدوی قبیلہ کا ایک کم سن لڑکا بگیر اپنی خواہش اور مرضی کے مصر پہنچ گیا اور کچھ عرصہ کے بعد دنیا نے دیکھا کہ اس عظیم الشان مملکت کی حکومت کی باگ اسی کنعانی کے ہاتھوں میں ہے اور بادشاہ سے لے کر مصر کی ادنی رعایا تک اس کی عظمت و فضیلت کے آگے جھکے ہوئے ہیں، گویا وقت کی سب سے بڑی پرشوکت، سب سے بڑی متمدن، سب سے بڑی مغرور مملکت کے تخت حکمرانی پر اچانک کون پہنچ گیا؟ اسی بدوی قبیلہ کا ایک چرواہا جسے اس متمدن آبادی کا ہر فرد نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا۔ اور پھر یہ عجیب و غریب معاملہ کن حالات میں ظہور پذیر ہوا؟ ایسے حالات میں جو اصل معاملہ سے بھی کہیں زیادہ عجیب و غریب تھے۔ اسے سوتیلے بھائیوں نے ہلاک کرنے کے لیے کنویں میں ڈال دیا، کنواں خشک تھا اور شاہرا سے الگ، اس لیے انہیں یقین تھا کہ کوئی انسان وہاں نہیں پہنچ سکے گا۔ لیکن اتفاق سے ایک قافلہ راہ بھول کر وہاں آنکلتا ہے اور پانی کے لیے ڈول ڈالتا ہے، لڑکا سمجھتا ہے میرے بھائیوں کو رحم آگیا، اب مجھے نکلانے کے لیے ڈول ڈال رہے ہیں، وہ اس میں بیٹھ جاتا ہے اور اس طرح اس کی رہائی کا سامان ہوجاتا ہے۔ کنعانی غلام : لیکن کیسی رہائی؟ ایسی رہائی جس میں ایک ہلاکت سے جو تھوڑی دیر کی تھی نجات مل گئی لیکن دوسری ہلاکت جو عمر بھر رہنے والی ہلاکت تھی نمودار ہوگئی، یعنی بھائیوں نے اسے اپنا بھاگا ہوا غلام ظاہر کرکے قافلہ والوں کے ہاتھ بیچ ڈالا، وہ اسے کسی دوسرے گاہک کے ہاتھ بیچنے کے لیے مصر لے آئے۔ اس طرح مصر میں اس کا داخلہ ایک غلام کا داخلہ تھا، اور غلام بھی ایسا جو کم سے کم قیمت میں خریدا گیا اور اب کم سے کم قیمت پر فروخت کیا جارہا ہے، نہ تو بیچنے والے اس کی قدر و قیمت بڑھانے کے خواہشمند تھے، نہ اب بازار مصر میں اس جنس کی گرانی کا کوئی سامان ہے۔ لے جایے دکھلانے اسے مصر کا بازار۔۔۔۔ خواہاں نہیں پر کوئی وہاں جنس گراں کا ! غلامی کا خواجگی و آقائی ہوجانا : بہرحال ایک خریدار کی نظر پڑجاتی ہے، یہ اس کے گھر میں ایک نو خرید غلام کی حیثیت سے ہوتا ہے، مگر اپنے حسن عمل سے خواجگی و آقائی کا درجہ حاصل کرلیتا ہے۔ یہ انقلاب حال بجائے خود عجیب و غریب تھا لیکن اس سے بھی عجیب تر معاملہ وہا تھا جب اس زرخرید غلام کے سامنے بیک وقت دو باتیں پیش کی گئیں کہ دونوں میں سے جسے چاہے اپنے لیے پسند کرلے : (ولئن لم یفعل ما امرہ لیسجنن ولیکونا من الصغرین) امتحان عصمت : نفسانی زندگی کی سب سے بڑی عشرت و کامرانی اور انسانی زندگی کی سبسے بڑی محرومی و نامرادی، پہلی میں نفس کی عشرت مگر حق کی معصیت تھی، دوسری میں نفس کی محرومی مگر حق کی اطاعت تھی، وہ پہلی سے بھاگتا ہے اور دوسری کے لیے آرزوئیں کرتا ہے، پہلی سے اس طرح بھاگتا ہے گویا اس سے بڑھ کر کوئی مصیبت نہیں، دوسری کے لیے اس طرح التجائیں کرتا ہے گویا اس سے بڑھ کر کوئی محبوب شے نہیں : (رب السجن احب الی مما یدعوننی الیہ) تمنت سلیمی ان نموت بحبھا۔۔۔ واھون شی عندنا ما تمنت۔ مصر میں کسی انسان کی ذلت و نامرادی کے جتنے سامان ہوسکتے تھے اب وہ سب جمع ہوگئے، اول تو عبرانی قبیلہ کا ایک فرد، پھر کیسا فرد؟ زر خرید غلام، کیسا غلام؟ جسے اس کے آقا نے ایک بڑے جرم کا مرتکب پایا اور سزا کا مستحق تصور کیا، کیسی سزا؟ قید خانے میں ڈالے جانے کی سزا جو ذلت و خواری اور تعذیب و عقوبت کی بڑی سے بڑی سزا سمجھی جاتی تھی۔ اب وہ مصریوں کی نگاہ میں قابل نفرت عبرانی بھی ہے، غلام بھی ہے، مجرم بھی ہے اور قیدی بھی۔ قید خانہ اور تخت مصر : لیکن پھر غور کرو دنیا کی کون سی بات اس سے زیادہ عجیب ہوسکتی ہے کہ اسی قیدی کے لیے اچانک قید خانے کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور کھولنے والا کون ہوتا ہے؟ خود مصر کا بادشاہ، اور پھر کیوں کھولتا ہے؟ اس لیے کہ ایک عبرانی قیدی کو قید خانہ سے نکالے اور مصر کے تخت فرماں روائی پر بٹھا دے، گویا مصر کے قید خانے اور مصر کے تخت حکومت کا درمیانی فاصلہ ایک قدم سے زیادہ نہ تھا، اس نے قید خانہ سے قدم اٹھایا اور اس نے تخت فرماں روائی پر قدم رکھ دیا۔ طے ی شود ایں رہ بہ درخشیدن برقے۔۔۔۔ ما بے خبراں منتظر شمع و چراغیم ! پھر اس عجیب وغریب انقلاب کا نتیجہ کیا نکلا؟ ایسا کہ ان ساری باتوں سے بھی زیادہ عجیب ہے اور جسے قرآن کی ایجاز بلاغت نے صرف ایک جملہ میں واضھ کردیا ہے : (وکذلک مکنا لیوسف فی الارض یتبوا منھا حیث یشاء) اللہ نے سرزمین مصر میں اس کے قدم اس طرح جما دیے کہ اس کے جس حصے کو چاہے اپنے کام میں لائے، چنانچہ اس نے اپنے تمام خاندان کو کنعان سے مصر بلا لیا اور عین دار الحکومت میں کہ جشن کی سرزمین تھی عزت و احترام کے ساتھ وہ بسائے گئے۔ اب وہی صحرا کے بدوی جو مصر میں قابل نفرت سمجھے جاتے تھے مصری دار الحکومت کے معزز باشندے ہوئے اور وہاں ان کی نسل میں اس درجہ برکت ہوئی کہ جب چار سو برس کے بعد مصر سے نکلے تو کئی لاکھ تک تعداد پہنچ چکی تھی۔ کئی لاک انسانوں کی یہ قوم جو مصر سے نکلی، کن لوگوں کی نسل سے بنی تھی؟ اسی لڑکے کی نسل سے جو غلام بن کر آیا تھا اور فرماں روا بن کر چمکا تھا، اور اس کے گیارہ بھائیوں کی نسل سے جنہوں نے اسے ہلاک کرنا چاہا تھا، لیکن اس نے انہیں زندگی اور زندگی کی کامرانیاں بخش دیں۔ اس طرح اس عہد کی کرشمہ سازیوں کا ظہور شروع ہوگیا جس کی بشارتیں حضرت ابراہیم کو دی گئی تھیں اور پھر حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب سے بھی ان کی تجدید ہوئی تھی۔ روحانی صداقت اور مادی ترقیات کا مقابلہ : سب سے پہلی بات جو اس سلسلہ میں سامنے آتی ہے وہ روحانی صداقت اور مادی ترقیات کا مقابلہ ہے۔ حضرت یعقوب کا گھرانا دین حق کی امانت رکھتا تھا، وحی الہی کی برکتوں سے فیض یاب تھا لیکن مادی ترقیوں اور دنیوی شوکتوں میں سے کوئی بات بھی اسے میسر نہ تھی حتی کہ شہری زندگی کی ابتدائی خصوصیات سے بھی آشنا نہیں ہوا تھا، اس کے تمام افراد صحرا میں رہتے تھے، مویشی چراتے تھے اور قدرتی زندگی کی سادگی پر قانع تھے۔ لیکن مصر کی حالت بالکل اس سے مختلف تھی، وہ دین حق کے علم و عمل اور وحی الہی کے فیضان سے محروم تھا، لیکن وقت کی تمام مادی ترقیوں کا سرمایہ دار تھا، اس کے دار الحکومت کے لوگ لکھنے پڑھنے میں ماہر تھے، اس کے امراء و اشراف حکمرانی و دانشوری میں ترقی یافتہ تھے۔ اس کے مندروں کے کاہن حقائق اشیا کے بھید جاننے والے تھے اور اس کے حکیم علوم و صنائع کے عجائب و غراب سکھلانے والے تھے۔ آج اثریات مصر نے ایک مدون علم کی حیثیت اختیار کرلی ہے، اس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس عہد کا فرعون غالبا وہ شخص تھا جسے آثار مصر میں آبوفی کے نام سے پکارا گیا ہے، اس کے عہد میں مصری تمدن پوری طرح ترقی کرچکا تھا۔ لیکن جب عجیب و غریب اتفاقات نے اس صحرائی گھرانے کے ایک فرد کو مصر پہنچا دیا اور ایسی حالتوں میں پہنچایا جو کسی حال میں بھی عزت و کامرانی کا ذریعہ نہیں ہوسکتی تھیں تو پھر کیا نتیجہ نکلا؟ یہ نکلا کہ دونوں قوتوں میں مقابلہ ہوا اور بالآخر دین حق کے علم و عمل اور وحی الہی کے فیضان نے وقت کی تمام مادی فضیلتوں کو مسخر کرلیا۔ حضرت یوسف کے پاس دین حق کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ مصریوں کے پاس دین حق کے سوا اور سب کچھ تھا۔ یہ صرف دین حق کی فضیلت سے آراستہ تھے۔ وہ ہر طرح کی مدی فضیلتوں میں تفوق رکھتے تھے۔ بایں ہمہ ہر مقابلہ میں فتح مندی حضرت یوسف ہی کی سیرت و عمل کو ہوئی اور قدم قدم پر مادی فضیلتوں کو اپنے تفوق سے دست بردار ہونا پڑا۔ حتی کہ جب مملکت کی سلامتی خطرہ میں پڑگئی تو اس کی نجات کے لیے مادی فضائل کی کوئی پیداوار بھی کام نہ دے سکی۔ اسی عبرانی نوجوان کے آگے مصر کو جھکنا پڑا کہ اس کی سلامتی کی راہ نکال دے۔ جب حضرت یوسف نے بادشاہ مصر سے کہا تھا : (اجعلنی علی خزائن الارض انی حفیظ علیم) توفی الحقیقت یہ دین حق اور فیضان وحی کا ایک اعلان تھا جو وقت کے سب سے بڑے مرکز تمدن کے مقابلہ میں کیا گیا تھا، یعنی آج مملکت کی نجات کے لیے ایسے شخص کی ضرورت ہے جو علم و کاروانی کے ساتھ حفاظت کرنے والا ہو۔ لیکن ایسا شخص پیش کرنے سے مصر کی پوری مدنیت عاجز ہوگئی۔ اس کا عظیم الشان دار الحکومت، جو کارفرماؤں، دانشمندوں اور کاہنوں سے بھرا ہوا ہے ایک فرد بھی پیش نہ کرسکا جو یہ بوجھ اٹھانے کا اہل ہو، لیکن میں تیار ہوں کہ یہ بوجھ اٹھا لوں۔ میں دنیا کی سب سے بڑی مملکت کو اس کی ہلاکت کی گھڑیوں میں بچا لوں گا۔ کیونکہ میں حفاظت کرنے والا، علم رکھنے والا ہوں۔ متمدن مصر نے کنعان کے صحرائی کا یہ اعلان سنا اور اس کے آگے سرنیاز خم کردیا، یہی معنی ہیں اس آیت کے کہ (وکذلک مکنا لیوسف فی الارض یتبوا منھا حیث نشاء نصیب برحمتنا من نشاء ولا نضیع اجر المحسنین۔ والاجر الاخرۃ خیر للذین امنوا وکانوا یتقون) قوانین عمل و نتائج عمل : لیکن یہ معاملہ کتنا ہی عجیب معلوم ہوتا ہے اور کیسی ہی عجیب حالتوں میں پیش آیا، قرآن کہتا ہے کہ قوانین الہی کے قدرتی نتائج کا ظہور تھا اور حقیقت شناسوں کے لیے اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں، یہ سب کچھ ٹھیک اسی طرح ہوا جس طرح آگ کے جلانے سے گرمی نکلے یا پانی پینے سے پیاس بجھ جائے۔ کیونکہ اللہ نے اشیا کی طرح اعمال کے بھی خواص و نتائج ٹھہرا دیے ہیں اور جب کبھی ایک خاص طرح کا عمل وجود میں آتا ہے ایک خاص طرح کا نتیجہ بھی ضرور ظہور میں آجاتا ہے۔ یہاں ہر گوشے میں علت کے ساتھ معلول کا دامن باندھ دیا گیا ہے۔ بھائیوں نے جو کچھ یوسف کے ساتھ کیا وہ اسکے سوا کیا تھا کہ ایک خاص طرح کا انسانی عمل تھا، اور جب خاص طرح کا عمل تھا تو خاص طرح کا نتیجہ نکلنا ہی تھا اور نتیجہ نکلا۔ حضرت یوسف زندگی کی مختلف آزمائشوں میں جو کچھ کرتے رہے اس کی حقیقت بھی اس کے سوا کیا تھی کہ ایک خاص سیرت کے خاص اعمال تھے، اور جب اعمال تھے تو ضروری تھا کہ جیسے کچھ اعمال ہوں ویسا ہی نتیجہ بھی نکلے اور ویسا ہی نتیجہ نکلتا رہا۔ اسی طرح سرگزشت کی تمام سیرتوں پر نظر ڈالو۔ ہر سیرت ایک خاص طرح کے عمل میں لگی ہوئی ہے اور ہر عمل ایک خاص طرح کا نتیجہ تیار کر رہا ہے۔ سب نے اپنے اپنے بیج بوئے تھے اس لیے سب کو اپنے اپنے پھل ملنے تھے اور سب نے اپنے اپنے پھل پا لیے، پس جہاں تک اعمال و نتائج کا تعلق ہے یہ تاریخ انسانیت کا کوئی مستثنی حادثہ نہ تھا بلکہ سنت الہی کی وہی کارفرمائی تھی جو ہمیشہ سے کارفرما ہے اور ہمیشہ کار فرما رہے گی جب کبھی ایسے احوال و ظروف میں ایسے اعمال ظہور پذیر ہوں گے، ضروری ہے کہ اسی طرح کے نتائج بھی ظہور میں آئیں : (سنۃ اللہ فی الذین خلوا من قبل ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا) بلاشبہ حوادث کی نوعیت عجیب تھی اور نتائج بھی عجیب طرح کے نکلے لیکن سنت الہی کی کرشمہ سازیوں کا تو ہیشہ ایسا حال رہتا ہے وہ اپنی کس بات میں عجیب نہیں؟ وہ تو سرتاسر معجزہ ہے۔ تم جب چاہو اپنے حسن عمل کی قوت سے ہر طرح کے کرشے اور اچنبھے پیدا کردے سکتے ہو لیکن مشکل یہ ہے کہ تم چاہتے ہی نہیں اور اسی لیے قانون عمل کے کرشمے تم پر کھلتے بھی نہیں، دنیا میں یوسف کی سرگزشت ایک ہی مرتبہ گزری لیکن یوسف کے حسن عمل کی سرگزشت ایک ہی مرتبہ کے لیے نہ تھی۔ بلاشبہ مصر کا بازار اب باقی نہیں رہا، لیکن دنیا کا بازار کس نے بند کیا ہے؟ آج بھی جس کا جی چاہے شان یوسفیت پیدا کرکے دیکھ لے، دنیا کے تخت عظمت و اجلال اس کا استقبال کرتے ہیں یا نہیں۔ ہر کس نہ شناسدہ راز ست وگرنہ۔۔۔ ایں ہا ہمہ راز ست کہ معلوم عوام است ! یہی وجہ ہے کہ سورت میں جابجا اس حقیقت کی طرف اشارات کیے گئے کہ ارباب دانش کے لیے اس میں عبرتیں ہیں، موعظتیں ہیں، نشانیاں ہیں، سرگزشت کی ابتدا ہی اس اعلان سے ہوتی ہے کہ (لقد کان فی یوسف واخوتہ ایت للسائلین) پھر خاتمہ بھی اسی پر ہوتا ہے کہ (لقدن کان فی قصصھم عبرۃ لاولی الالباب) نیز جابجا اہم واقعات کے ظہور کے بعد وضاحت کردی ہے کہ (کذلک نجز ی المحسنین) (انہ لا یفلح الظالمون) (انہ من یتق ویصبر فان اللہ لا یضیع اجر المحسنین) یعنی یہ سب کچھ جو ظہور میں آیا، عمل کا نتیجہ ہے، بدلہ ہے، مکافات ہے۔ اور جب نتیجہ ہے تو ضروری ہے کہ ہمیشہ ظہور میں آئے۔ جب بدلہ ہے تو ضروری ہے کہ ہمیشہ کام کرنے والوں کو ملے۔ حسد و بغض کا نتیجہ وہی ہے جو بھائیوں نے پایا۔ راست بازی اور نیک عملی کا نتیجہ وہی ہے جو حضرت یوسف کو ملا۔ صبر جمیل کبھی اس نتجہ سے محروم رہ سکتا جو حضرت یعقوب کے حصے میں آیا تھا۔ معصیت کے بیج سے ہمیشہ وہی پھل پیدا ہوگا جو امراۃ العزیز کو نصیب ہوا تھا۔ جھوٹ کتنا ہی سوچ سمجھ کر بنایا گیا ہو سچ نہیں ہوسکتا۔ سچ کتنے ہی نافوافق حالات میں اپنے کو پائے لیکن جھوٹ نہیں ہوسکتا۔ علم و فضیلت ہر حال میں ایک حکمراں قوت ہے۔ سب کو اس کے آگے جھکنا پڑے گا۔ حسن عمل ہر حال میں ایک فتح مند حقیقت ہے۔ سب کو اس کا لوہا ماننا پڑے گا۔ سرگزشت کی شخصیتیں اور ان کی سیرت : سرگزشت کی اصلی عبرت اس کی خاص خاص شخصیتیں ہیں اور ضروری ہے انہیں اچھی طرح پہچان لیا جائے : سب سے پہلے حضرت یعقوب کی شخصیت نمایاں ہوتی ہے اس میں درد و غم کی انتہا ہے مگر ساتھ ہی صبر اور یقین کی روح بھی چھائی ہوئی ہے اور اس طرح چھائی ہوئی ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ درد و غم کے طوفان اٹھ رہے ہیں، لیکن صبر و یقین سے ٹکرا کر رہ جاتے ہیں، اس پر غالب نہیں آسکتے، اور یہی صورت حال اس سیرت مقدسہ کا اسوہ حسنہ ہے۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) : قرآن کی معجزانہ بلاغت یہ ہے کہ وہ داستان سرائی نہیں کرتا، ایک دو لفظوں کے اندر سب کچھ کہہ دیا کرتا ہے، پس غور کرو، صورت حال کے یہ تینوں عنصر کس طرح اپنی انتہائی اور کامل صورتوں میں نمایاں ہوئے ہیں؟ درد و غم کی شدت جب نمایاں ہوتی ہے تو معلوم ہے۔ آتش فراق کے شعلوں کا دھواں آنکھوں سے بے اختیار بہہ رہا ہے اور جسم کا ایک ایک ریشہ اس طرح گھل گیا ہے گویا سرتا پاجاں گدازی و ہلاکت کی تصویر ہے : (وتولی عنھم وقال یاسفی علی یوسف وابیضت عینہ من الحزن فھو کظیم) اور یہ حالت ایک دن کی حالت نہ تھی بلکہ اس مدت فراق کی ہر صبح اور ہر شام اسی عالم میں بسر ہوئی تھی : (قالو اتا اللہ تفتوا تذکر یوسف حتی تکون حرضا او تکون من الھالکین) یذکرنی طلوع الشمس صخرا۔۔۔ وازکرہ بکل غروب شمس ! لیکن پھر جب یقین کی روشنی چمکتی ہے تو اس کی نمود کا یہ حال ہے کہ دنیا کے سارے سہارے جواب دے چکے ہیں، امید کے سارے رشتے یک قلم ٹوٹ چکے ہیں، ہر طرف سے صدا اٹھ رہی ہے کہ یوسف کی اب کوئی امید نہیں، لیکن ان کے دل کے ایک ایک ریشے کی صدا یہ ہے کہ (انما اشکوا بثی وحزنی الی اللہ واعلم من اللہ ما لا تعلمون) اور (اذھبوا فتحسسوا من یوسف واخیہ ولا تائیسوا من روح اللہ انہ لا یائیس من روح اللہ) حتی کہ ہر زبان جھٹلا رہی ہے اور ہر نگاہ دیوانہ سمجھ رہے، لیکن ان کی زبان سے بے اختیار نکل رہا ہے) (انی لاجد ریح یوسف) مجھے یوسف کی مہک آرہی ہے۔ تفاوت است میان شنیدن من و تو۔۔۔ تو بستن در و من فتح باب می شنوم ! پھر دیکھو۔ جب صبر کا مقام نمایاں ہوتا ہے تو اس کی مضبوطی کیسی غیر متزلزل، کیسی اٹل ہے؟ جب یوسف کے فراق کا داغ لگا تو اس وقت بھی زبان سے یہی نکلا کہ (بلا سولت لکم انفسکم امرا فصبر جمیل واللہ المستعان علی ما تصفون) اور پھر جب بنیامین کی جدائی کی خبر سنی تو اس وقت بھی اس کے سوا کچھ زبان سے نہ نکلا کہ (فصبر جمیل عسی اللہ ان یاتینی بھم جمیعا انہ ھو العلیم الحکیم) پھر باوجودیکہ بے خبر نہ تھے۔ علم و یقین کے ساتھ سمجھ چکے تھے کہ یوسف کے خلاف سازش کی گئی ہے لیکن پوری سرگزشت میں کہیں کوئی اشارہ اس کا نہیں ملتا کہ دو باتوں سے زیادہ اس باب میں کچھ زبان سے نکلا ہو۔ ایک تو یہ کہ (بل سولت لکم انفسکم امرا) اور دوسرا وہ جو اس وقت زبان سے نکل گیا، جب بھائیوں نے بنیامین کو ساتھ لے جانا چاہا۔ (ھل امنکم علیہ الا کما امنتکم علی اخیہ من قبل) اور ان دونوں جملوں میں بھی نہ تو ملامت کی سختی ہے نہ شکایت کی تیزی۔ بلکہ صورت حال کی ایسی تعبیر ہے جس سے زیادہ نرم اور دھیمی تعبیر ہو ہی نہیں سکتی۔ پہلے جملہ میں صرف اس کا اظہار تھا کہ جو بات کہہ رہے ہو اصلیت اس کے خلاف ہے، لیکن خیر، صبر کے سوا چارہ نہیں، دوسرے میں صرف پہلے واقعہ کا نتیجہ یاد دلایا ہے، کس طرح کا الزام نہیں دیا ہے، یعنی مجھے بھروسہ کرنے کے لیے کہتے ہو لیکن اگر بھروسہ کروں تو کیا اسی طرح کروں جس طرح پہلے کرچکا ہوں اور اس کا جو نتیجہ نکل چکا ہے تمہیں معلوم ہے؟ اتنا ہی نہیں بلکہ اگر غور کیا جائے تو پہلے جملہ کا اسلوب ایسا واقع ہوا ہے کہ سرزنش سے کہیں زیادہ رحم و تاسف پر مبنی ہے اور مخاطبوں کے لیے ایک طرح کی معذرت کا پہلو پیدا کررہا ہے۔ یعنی یہ نہیں فرمایا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو، یا تم نے یوسف کے خلاف سازش کی ہے، بلکہ کہا : تمہاری جی نے تمہارے لیے ایک بات بنا دی ہے اور اسے تمہارے خیال میں خوشنما دکھا دیا ہے، کیونکہ تسویل کے معنی یہ ہیں کہ کسی بات کا جما دینا، خوشنما بنا کر دکھا دینا اور اس کے لیے طمع و خواہش کا پیدا ہوجانا۔ پس گویا یہ ایک ہمدرد دل کا تاسف تھا کہ افسوس تم نفس کے دام میں پھنس گئے اور اس کے دھوکے سے بچ نہ سکے۔ پھر ساتھ ہی ان کے اس طرز عمل کے لیے معذرت کے پہلو کا بھی اعتراف ہے کہ طمع نفس میں آکر ایسا کر بیٹھے ہو اور انسان نفس کے ہاتھوں بے بس ہوجاتا ہے۔ ایک ایسے صدمہ جانکاہ میں جیسا کہ حضرت یعقوب کو ناگہاں پہنچا تھا، اور کسی طرح کی بات کا زبان پر نہ آنا، صرف اسی جملہ کا نکلنا صبر کا کیسا عظیم الشان مظاہرہ ہے ؟ یہ ممکن ہے کہ صدمہ کے فوری تاثر کے بعد ایک ضابط اور متحمل آدمی اپنے دل و زبان کی نگرانی کرلے لیکن عین اس وقت جب صدمہ کی پہلی چوٹ لگ رہی ہو اور دل کی بے تابیاں بے اختیار زبان کی طرف اٹھنے لگی ہوں، ممکن نہیں کہ دل د زبان کی نگہداشت کی جاسکے۔ ضابط سے ضابط دل بھی اس عالم میں چیخ اٹھتا ہے۔ مضبوط سے مضبوط طبعیتیں بھی بے اختیار متزلزل ہوجاتی ہیں۔ لیکن حضرت یعقوب کا مقام صبر ایسا نہ تھا جو کسی حال میں بھی متزلزل ہوسکے۔ اس عالم میں بھی زبان کھلتی ہے تو ایسا سنبھلا ہوا جملہ نکلتا ہے گویا بے حالی و جانکا ہی کا کوئی معاملہ پیش ہی نہیں آیا ہے۔ یہی وہ صبر ہے جسے صبر جمیل فرمایا۔ بظاہر خیال ہوتا ہے کہ یہ تینوں باتیں بیک وقت جمع نہیں ہوسکتیں۔ اگر صبر کامل ہے تو پھر درد و غم کی شدتیں کیوں ہوں؟ اور اگر یقین موجود تھا تو درد و غم کو محو ہوجانا چاہیے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مفسرین نے اس مقام میں مشکلات محسوس کیں اور طرح طرح کی توجیہوں کی جستجو میں نکلے۔ لیکن اگر وقت نظر سے کام لیا جائے تو معاملہ بالکل واضح ہے اور کسی ایسی توجیہ کی ضرورت نہیں جو بہ تکلف پیدا کی جائے۔ یہ ظاہر ہے کہ حضرت یعقوب کا مقام، صبر کا مقام تھا اور صبر جب ہی صبر ہوسکتا ہے جب بے صبری کے اسباب موجود ہوں اور زیادہ سے زیادہ موجود ہوں۔ اگر درد و غم کی ٹیس نہیں اٹھ رہی ہے تو تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ جھیلنے اور اف نہ کرنے کی حالت موجود ہے؟ جھیلنا تو اسی کا جھیلنا ہوگا جو برابر آگ کی جلن محسوس کر رہا ہو، لیکن پھر بھی زبان سے اف نہ نکالے۔ اگر حضرت یعقوب کا درد و غم اس طرح محو ہوجاتا کہ اس کی جلن باقی ہی نہ رہتی یا رہتی تو بہت دبی دبائی رہتی تو یہ مقام صبر کا مقام نہ ہوتا۔ موجبات غم سے متاثر نہ ہونے کا مقام ہوتا۔ اور ایسی ھالت یا تو فرشتوں کی سیی مخلوق ہوسکتی ہے یا ایسے انسان کی جس کے احساسات معطل ہوچکے ہیں۔ لیکن حضرت یعقوب انسان تھے، فرشتہ نہ تھے اور اسی حیثیت سے قرآن نے اس کا اسوہ حسنہ پیش کیا ہے، ان کی روح صبر و یقین سے معمور تھی، وہ یوسف کے خواب میں اس کا مستقبل دیکھ چکے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ کسی نہ کسی دن یہ جدائی ختم ہونے والی ہے۔ تاہم دل کے ہاتھوں مجبور تھے، جس کی جدائی ایک گھڑی کے لیے شاق تھی وہ برسوں کے لیے ان سے جدا ہوگیا تھا۔ یہ جاننے پر بھی کہ وہ زندہ و سلامت موجود ہے، اس کے فراق کا زخم بھر نہیں سکتا تھا۔ بلکہ اس بات کے تصور نے کہ وہ زندہ موجود ہے مگر مجھ سے دور ہے، درد فراق کی چبھن اور زیادہ کرتی تھی : بلائے ہجر وارد انتظار پیر کنعانی۔۔۔ کسے داند کہ چوں یوسف عزیزے در سفر دارد ! فی الحقیقت اس صورت حال کی ساری عظمت اسی میں ہے کہ یہ ایک ماورائے انسانیت سیرت نمودار نہیں کرتی بلکہ ایسی حالتوں میں ایک کامل صابر و مومن کی زندگی کی جو تصویر ہوسکتی ہے وہ سامنے آگئی ہے، دل آتش فراش میں پھنکا جارہا ہے اور ہزار کوشش کی جائے لیکن یہ آگ اس طرح بجھنے والی نہیں۔ لیکن ساتھ ہی روح ایمان و یقین سے معمور ہے اور دماغ صبر جمیل کا عزم کرچکا ہے۔ پس غم کو دیکھا جائے تو وہ اپنی جگہ ہے، صبر و یقین کو دیکھا جائے تو وہ اپنی جگہ ہے، اگر دل اپنی بے قراریوں میں کبھی کمی نہیں کرتا تو دماغ بھی اپنے شیوہ صبر و رضا میں کبھی متزلزل نہیں ہوسکتا۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دل کی بے تابیاں حد سے گزر جاتی ہیں اور یا اسفی علییوسف بے اختیار زبان سے نکل جاتا ہے لیکن یہ بھی نکلتا ہے تو کس کے آگے نکلتا ہے؟ اس کے آگے جس کے آگے اپنا درد و غم پیش نہ کیجیے تو یہ بھی شان عبودیت کے خلاف ہے (انما اشکوا بثی وحزنی الی اللہ واعلم من اللہ ما لا تعلمون) مکن تعافل ازیں بیشتر کہ ی ترسم۔۔۔۔ گماں برند کہ ایں بندہ بے خداوندست ! یوسف (علیہ السلام) : پھر حضرت یعقوب کے بعد حضرت یوسف کی شخصیت نمایاں ہوتی ہے اور یہی سرگزشت کی اصلی شخصیت ہے۔ یہاں پہنچتے ہی ایک خاص حقیقت کی جلوہ نمائی شروع ہوجاتی ہے اور جس جس رخ سے دیکھیے اور جہاں کہیں دیکھیے، اسی کی نمود سامنے آتی رہتی ہے۔ یعنی انسان کی سیرت (کیریکٹر) کی فضیلت اور اس فضیلت کی اٹل کامرانیاں، ان کی سیرت کا مطالعہ ہمیں بتلاتا ہے کہ انسانی زندگی کی سب سے بڑی قوت اس کی سیرت کی فضیلت ہے اور اگر یہ فضیلت موجود ہو تو پھر اس کے لیے فتح و کامرانی کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ دنیا کی ساری رکاوٹیں اس کی راہ روک لیں جب بھی وہ اپنی راہ نکال لے گا۔ دنیا کے سارے سمندر اور پہاڑ اس کی راہ میں حائل ہوجائیں جب بھی اس کی رفات نہیں رکے گی، حوادث و وقائع اس پر قابو نہیں پاسکتے، احوال و ظروف اس پر غالب نہیں آسکتے، افراد و جماعت کی کوششیں اسے مسخر نہیں کرسکتیں۔ اس کے لیے ہر حال میں کامرانی ہے، اس کے لیے ہر گوشہ میں فتح مندی ہے، اس کے لیے ہر طاقت پر فرماں روائی ہے، وہ اعمال و نتائج کی اس امتحان گان میں صرف اسی لیے ہے کہ سربلند ہو، عجز و درماندگی کی آلودی کبھی اسے چھو نہیں سکتی۔ سترہ برس کا ایک کم سن لڑکا باپ کی آغوش محبت سے جبرا چھین لیا جاتا ہے اور اچانک اپنے آپ کو کن لوگوں میں پاتا ہے؟ ان میں جو چند سکوں کے بدلے اسے غلام بنا کر بیچ رہے ہیں۔ دنیا کی ایک لاکھ انسانی طبیعتیں ایسی حالت میں کیا کرتیں؟ مگر غور کرو، اس نے کیا کیا؟ اچانک ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ایک تجربہ کار دانشمند کی طرح اس نے صورت حال جائزہ لے لیا ہو اور پھر فیصلہ کرلیا ہو کہ جو حال بھی پیش آجائے اسے صبر و سکون کے ساتھ جھیل لینا چاہیے اور اسی کے مطابق کام کیے جانا چاہیے۔ قافلہ والوں نے انہیں غلام کی حیثیت میں پیش کیا، وہ ایک غلام کی طرح پیش ہوگئے، عزیز مصر نے غلام کی طرح خرید لیا، انہوں نے غلام کی طرح خدمت شروع کردی اور اس کے ساتھ اسی طرح پیش آئے جس طرح ایک طاعت شعار اور وفادار غلام کو اپنے آقا کے ساتھ پیش آنا چاہیے، کہیں سے بھی کوئی ایسی بات مترشح نہیں ہوتی کہ ایسا کرنے میں انہیں کوئی تامل ہوا ہو، گویا یہ ناگہانی مصیبت جو ہزاروں لاکھوں انسانوں کے لیے پوری زندگی کی سوگواری بن جاتی ان کے لیے کوئی مصیبت ہی نہ تھی، باپ کے آغوش محبت سے نکل کر اچانک ایک اجنبی ملک میں ایک اجنبی غلام بن جانا ان کے لیے ایسی ہی بات ہوئی جیسے اپنی مرضی سے زندگی کا ایک عیش چھوڑ کر دوسرا عیش اختیار کرلینا۔ نہ پچھلی حالت کا ماتم ہے، نہ موجودہ حالت سے جھجک۔ نہ گزشتہ کی یاد میں سوگواری ہوئی، نہ آئندہ کے اندیشہ میں بدحالی، اس عازم اور بے پروا ملاح کی طرح جسے نہ تو کنارہ چھوٹنے کا غم ستاتا ہے نہ آنے والے طوفان کا اندیشہ، اس نے اپنی کشتی چلانی شروع کردی اور دیکھو بالآخر ساحل مقصود تک پہنچ کر رہی۔ حوادث و انقلاب کے ترکش میں اس سے بڑھ کر اور کون سا تیر ہوسکتا ہے جو اس پر چلایا گیا تھا؟ لیکن اس کے صبر و عزم نے اسے پرکاہ کے برابر بھی نہ سمجھا اور اس طرح بے داغ نکل گیا گردش حوادث کا ہاتھ اس کے خلاف اٹھا ہی نہ تھا : چیں برجبیں زجنبش ہر خس نمی رسد۔۔۔۔ دریا دلاں چو موج گہرا آرمیدہ اند ! غور کرو، ہر اس انسان کے لیے جو دنیا کی مصیبتوں اور ناموافقتوں میں اپنی راہ نکالنی چاہتا ہو اس معاملہ کیسی عظیم الشان عبرت ہے؟ اگر حضرت یوسف نے مصائب و محن کی پہلی ہی منزل میں صبر، عزم، اعتماد نفس اور توکل علی اللہ کی یہ روح عظیم اپنے اندر نہ پیدا کرلی ہوتی تو کیا ممکن تھا کہ اس منزل مقصود تک پہنچ سکتے جو بالآخر ان کی منزل مقصود ثابت ہوئی؟ پھر دیکھو زمانہ کی گردشیں کس طرح آزمائشوں پر آزمائشیں پیدا کرتی رہیں اور ان کی غیر متزلزل اور بے داغ سیرت کس طرح فتح مندیاں حاصل کرتی گئی؟ سب سے پہلے عزیز مصر کے ساتھ ان کا معاملہ سامنے آتا ہے، اس نے بحیثیت غلام انہیں خریدا تھا، اور مصر کے آثار و نقوش ہمیں بتلا رہے ہیں کہ مصریوں کا سلوک غلاموں کے ساتھ کیسا ہوا کرتا تھا۔ وہ غلاموں کے لیے اتنے ہی سنگدل تھے جتنے سنگدل دنیا کی تمام پرانی قومیں رہ چکی ہیں، تاہم انہوں نے تھوڑے ہی عرصہ کے اندر اپنے حسن سیرت سے اس کا دل ایسا مسخر کرلیا کہ غلام کی جگہ آقائی کرنے لگے اور اس نے اپنی بیوی سے کہا : (اکرمی مثواہ عسی ان ینفعنا او نتخذہ ولدا) غور کرو یہ انقلاب حال کیونکر پیدا ہوا ہوگا؟ وہ کیسی وفاداری و دیانت اور راست بازی و امانت شعاری ہوگی جس نے ایک مصری امیر کو اس درجہ متاثر کردیا کہ ایک عبرانی غلام کو اپنے فرزند کی طرح چاہنے لگا اور اپنے تمام گھر بار اور علاقہ کا مختار کل بنا دیا؟ پھر امرۃ العزیز کا معاملہ رونما ہوتا ہے، پھچلی آزمائش ذہن و دماغ کی آزمائش تھی، یہ جذبات کی تھی اور ان انسان کے لیے سب سے بڑی آزمائش جذبات ہی کی آزمائش ہوتی ہے۔ وہ سمندر کی موجوں سے ہراساں نہیں ہوتا، پہاڑ کی چٹانوں سے نہیں گھبراتا، آسمان کی بجلیوں سے نہیں لرزتا، درندوں کے مقابلہ سے منہ نہیں موڑتا، تلواروں کے سایے میں کھیلنے لگتا ہے، لیکن نفس کی ایک چھوٹی سی ترغیب اور جذبات کی ایک ادنی سی کشش کا بھی مقابلہ نہیں کرسکتا لیکن حضرت یوسف کی سیرت کی چٹان یہاں بھی متزلزل نہ ہوسکی، ان کی بے داغ فضیلت پر نفس انسانی کا سب سے بڑا فتنہ بھی دھبہ نہ لگا سکا۔ قرآن کی معجزانہ بلاغت نے چند لفظوں کے اندر صورت حال کی پوری تصویر کھینچ دی ہے اور اگر ان اشاروں کو تشریح و بیان کا پورا جامہ پہنایا جائے تو کئی صٖفحوں کی داستان بن جائے۔ تم چشم تصور سے کام لو اور دیکھو ترغیبات کی قہر و سلطانی کا کیا حال تھا اور عیش نفس کی یہ دعوت کیسے شکیب آزما ساموں اور صبر ربا حالتوں کے ساتھ پیش آئی تھی؟ عمر عین عروج شباب کی عمر اور معاملہ محبت کا نہیں محبوبیت کا، طلب کا نہیں مطلوبیت کا، پھر طلب بھی ہوئی تو کیسی طلب؟ دیوانگی کی طلب اور دل باختگی کا تعاقب، پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ موانع بہ کلی مرتفع ہوگئے، کوئی انسانی آنکھ دیکھنے والی نہیں، کوئی پردہ حجاب حائل ہونے ولا انہیں، کون ہے جو ایسی حالت میں بھی اپنے آپ کو قابو میں رکھ سکتا ہے؟ عفت و پاکی کا کون سا پہاڑ ہے جو ان بجلیوں کی تاب لاسکتا ہے؟ لیکن ایک پہاڑ تھا جسے یہ بجلیاں بھی جنبش میں نہ لاسکیں، یہ حضرت یوسف کی سیرت تھی جو کسی حال میں بھی متزلزل نہیں ہوسکتی تھی، خود امراۃ العزیز کے لفظوں میں (اور اس سے بڑھ کر اس معاملہ کا کون شاہد ہوسکتا ہے) (انا راودتہ عن نفسہ فاستعصم) وہ اس حال میں بھی اپنی جگہ سے بے جگہ نہ ہوا۔ اس کوہ عصمت کے لیے ذرا سی بھی جنبش نہ تھی۔ پھر دیکھو۔ امرۃ العزیز کی دعوت عیش کے جواب میں جو کچھ ان کی زبان سے نکلا وہ کیا تھا؟ (معاذ اللہ انہ ربی احسن مثوای) تیرا شوہر میرا آقا ہے، اس نے مجھ پر اعتماد کیا، عزت و احترام کے ساتھ رکھا، پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس کے حسن سلوک کا بدلہ میں یہ دوں کہ اس کی امانت میں خیانت کرنے لگوں؟ غور کرو یہ برائی ایسی برائی تھی کہ اسے برائی دکھلانے کے لیے کتنی ہی باتیں کہی جاسکتی تھیں، لیکن ان کا ذہن اسی بات کی طرف گیا اور اسی کو قرآن نے نمایاں کر دکھایا، اس سے معلوم ہوا کہ ان کی سیرت کا اصلی جوہر یہیں ڈھونڈ نا چاہیے۔ امانت داری، راست بازی اور ادائے فرض کی روح ان پر چھائی ہوئی تھی کہ ہر موقع پر سب سے پہلے وہی سامنے آتی تھی۔ پھر اس کے بعد لائمات کا معاملہ پیش آتا ہے، اب صرف ایک امراۃ العزیز ہی کا فتنہ نہ تھا، دار الحکومت مصر کے تمام فتنہ گران حسن جمع ہوگئے تھے کہ ان کی متاع ضبط و تحمل کی غارتگریوں میں حصہ لیں : وائے برصید کہ یک باشد و صیادے چند ! مگر یہاں بھی کیا نتیجہ نکلا؟ (قلن حاش للہ ماھذا بشرا ان ھذا الا ملک کریم) ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں۔۔۔ جسے غرور ہو، آئے، کرے شکار مجھے ! پھر دیکھو۔ راست بازی و حق پرستی کی آزمائش نے اچانک کیسی صورت اختیار کرلی؟ دنیا میں انسانوں کو سزائیں اس لیے بھگتنی پڑتی ہیں کہ جرم و معصیت سے اپنے کو نہیں روک سکتے لیکن اب حضرت یوسف کے سامنے قید کی سزا اس لیے لائی جارہی ہے کہ جرم و معصیت سے کیوں اپنے آپ کو روک رہے ہیں، لوگوں کو قید و بند کی معصیت اس لیے برداشت کرنی پڑتی ہے کہ عیش حیات ڈھونڈتے ہیں اور جب نہیں ملتا تو جبرا لینا چاہتے ہیں۔ لیکن حضرت یوسف کو اس لیے قید خانے کی دھمکی دی جارہی ہے کہ عیش حیات نے اپنی ساری دلفریبیوں اور عنائیوں کے ساتھ انہیں دعوت دی اور انہوں نے اس سے منہ موڑ لیا۔ یہ حضرت یوسف کی سیرت کا سب سے زیادہ عظیم مظاہرہ ہے، یہ عشق حق کا نمونہ ہے، یہ پرستاری صدق کا دستور العمل ہے، یہ ایمان کامل کا معیار ہے، جب ان کے سامنے دو باتیں پیش کی گئیں : زندگی کا عیش مگر معصیت حق کی راہ میں، زندگی کے شدائد مگر راست بازی کی راہ میں تو ان کا فیصلہ قطعی اور بغیر کسی تامل کے یہ تھا کہ ( السجن احب الی مما یدعوننی الیہ) قید خانہ مجھے محبوب ہے مگر وہ بات نہیں جس کی مجھے دعوت دی جارہی ہے۔ ہمارے مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ حضرت یوسف کی بدشگونی تھی کہ خود قید خانہ کی بات بول اٹھے۔ اگر جلدی میں آکر ایسا نہ کہہ دیتے تو یہ ابتلا پیش نہ آتی، افسوس کس درجہ حقیقت فراموشی ہے، حضرت یوسف کی جو بات ان کی پاکی و عظمت کا سب سے بڑا جوہر تھی وہی ان حقیقت ناآشناؤں کی نظر میں ان کی لغزش ہوگئی، گویا حضرت یوسف کا قید خانہ کو معصیت پر ترجیح دینا، اور اسے خوشی خوشی اختیار کرلینا کوئی ایسی بات تھی جو نہ ہونی چاہیے تھی اور صرف اس لیے ہوگئی کہ حضرت یوسف نے بدشگونی کی بات کہہ دی تھی۔ غور کرو قرآن کہاں اور اس کے شارح کہاں پہنچ گئے ہیں۔ نزلوا بمکۃ فی قبائل ھاشم۔۔۔۔ و نزلت بالبیداء ابعد منزل ! پھر دیکھو۔ حضرت یوسف کی یہی سیرت ہے جو قید خانہ کی تنگ و تاریک کوٹھری کو بھی اسی طرح روشنی کردیتی ہے جس طرح عزیز مصر کے ایوان عزت و اقبال کو اس نے روشن کردیا تھا کیونکہ چراغ جہاں کہیں بھی رکھ دیا جائے روشنی ہی دے گا اور ہیرے کی چمک اس سے کم نہیں ہوجائے گی کہ جو امر خانہ شاہی میں رہنے کی جگہ کوڑے کرکٹ میں ڈال دیا گیا، تورات کی تصریح پڑھ چکے ہو کہ قید خانہ کا افسران کا معتقد ہوگیا تھا اور قید خانہ میں انہی کی افسری قائم ہوگئی تھی۔ پھر دیکھو۔ عین قیدخانہ کی زندگی میں دعوت حق کا داعیہ ان کے قلب مبارک میں اٹھتا ہے، اس وقت تک انہوں نے مصر میں دین حق کی تبلیغ نہیں کی تھی اگرچہ خود اسی پر قائم تھے، لیکن اب وقت آگیا تھا کہ خاندانی نبوت کا ان میں ظہور ہو، چنانچہ اسی کا نتیجہ ہے کہ اب یکایک اپنے قلب کو ولولہ تبلیغ سے معمور پایا۔ لیکن یہاں کون تھا جو اس تبلیغ کا مخاطب ہو؟ صرف قید خانہ کے ساتھی تھے جو طرح طرح کے جرموں کی پاداش میں یہاں پہنچا دیے گئے تھے۔ مگر غور کرو انہوں نے رہائی کا انتظار نہیں کیا۔ انہی قیدیوں میں تبلیغ حق شروع کردی اور اب مصر کا قید خانہ دعوت حق کی تعلیم و تربیت کی ایک درس گاہ بن گیا۔ پھر دیکھو۔ تبلیغ حق کے جوش و طلب کا کیا حال ہے ؟ دو نئے قیدی آتے ہیں جو بادشاہ کے خاص پیش خدمتوں میں سے تھے اور اپنا اپنا خواب بیان کرتے ہیں، خواب سن کر حضرت یوسف معلوم کرلیتے ہیں کہ ایک کی رہائی قریب ہے، دوسرے کی موت قریب ہے۔ پس چاہتے ہیں کہ فرصت کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ کریں اور تعلیم حق سے انہیں آشنا کردیں، ممکن ہے کہ جو رہا ہونے والا ہے وہ حق کا بیج اپنے ساتھ لے جائے اور دربار شاہی میں تخم ریزی کرسکے، جس کی موت قریب ہے، ممکن ہے کہ سچائی قبول کرلے اور دنیا سے جائے تو راہ حق پر جائے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں انہوں نے خواب سنتے ہی اس کی تعبیر نہیں بتلا دی کہ ان کی توجہ و رجوع سے فائدہ اٹھا کر ایک دوسرا ہی بیان شروع کردیا : (انی ترکت ملۃ قوم لا یومنون باللہ وھم بالاخرۃ ھم کافرون) ان کی سیرت کے اس مقام سے ہم معلوم کرسکتے ہیں کہ دعوت حق کا فریضہ کیونکر ادا کرنا چاہیے اور داعی حق کے جوش و طلب دعوت کا کیا حال ہوتا ہے؟ قید خانے کی زندگی بھی ادائے فرض دعوت سے مانع نہ ہوئی، اس حالت میں بھی فکر اس کی نہ تھی کہ میں کیونکر قید سے رہائی پاؤں۔ بلکہ تمام تر اس کی تھی کہ خدا کے بندے جہل و گمراہی سے کیونکر نجات پائیں؟ مہلت جب کبھی ملی اور جس حال میں ملی معا اسی مقصد کے لیے کام میں لائی گئی اور جس طرح اس آدمی کی ہدایت میں جلدی کی جو ابھی مدتوں زندہ رہنے والا تھا اسی طرح اس کی ہدایت کے لیے بھی صبر نہ کرسکے جس کے سر پر اجل کی تلوار لٹک رہی تھی، کیونکہ ہدایت پانا ہر انسان کا قدرتی حق ہے اور زندہ رہنے والا ہو یا مر رہا ہو اسے اس کا حق فورا ملنا چاہیے۔ پھر دیکھو۔ معاملہ صرف اتنے ہی پر ختم ہیں ہوجاتا بلکہ حتی الوسع کوشش کرتے ہیں کہ جہاں تک پہنچا سکتے ہیں پہنچا دیں، جونہی یہ بات معلوم ہوئی کہ ان میں ایک آدمی بادشاہ کے ساتھیوں کا سردار ہے اور پھر اسی منصب پر مامور ہونے والا ہے۔ معا ان کا ذہن اس طرف چلا گیا کہ ایسے آدمی کو جو خلوت و جلوت میں بادشاہ کے حضور رہنے والا ہے کتنا اچھا موقع حاصل ہوگا کہ پیام حق پادشاہ کے کانوں تک پہنچا دے؟ چنانچہ تعبیر بیان کرنے کے بعد اس سے فرمایا (اذکرنی عند ربک) اپنے آقا کے پاس جائیو تو مجھے یاد رکھیو۔ یعنی میری یہ تعلیم و دعوت یاد رکھیو اور اپنے آقا سے بعنوان مناسب اس کا تذکرہ کردیجیے و، ممکن ہے کہ پیام حق کام کرجائے۔ عام طور پر حضرت یوسف کے اس قول کا مطلب یہ سمجھا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی رہائی کے لیے کہا تھا، یعنی اپنے آقا سے میری سفارش کیجیو، لیکن جس محل میں یہ بات کہی گئی ہے اس سے اس کی تائید نہیں ہوتی ہے، قیدیوں سے جو کچھ بھی ان کے گفتگو ہوتی ہے یا تو تعبیر کے بارے میں ہے یا دین حق کے بارے میں ہے، اس کا کوئی اشارہ نہیں پایا جاتا کہ انہوں نے اپنے قید و محن کے مصائب کا کوئی ذکر کیا ہو۔ پس اس بات کا وہی مطلب موزوں معلوم ہوتا ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے۔ یہ بات بھی صاف ہوگئی کہ قیدیوں کا خواب سن کر آپ نے تعبیر فورا کیوں نہیں کردی تھی۔ مفسرین کہتے ہیں تاخیر اس لیے کی کہ وحی کا انتظار تھا۔ لیکن اگر آپ انتظار کی حالت میں ہوت تو اس وثوق کے ساتھ کیونکر وعدہ کرلیتے کہ (لا یاتیکما طعام ترزقنہ الا نباتکما بتاویلہ) اور فیضان وححی سے تو آپ کا قلب معمور ہورہا تھا، تعبیر کے لیے انتظار کرنے کی کیوں ضرور پیش ااتی؟ صاف بات یہی ہے کہ تاخیر قصدا کی تھی اور اس خیال سے کی تھی کہ تعبیر کی احتیاج نے ان دونوں کو میری طرف متوجہ کردیا ہے۔ چاہیئے کہ اس توجہ سے فورا فائدہ اٹھایا جائے اور دین حق کی دعوت چھیڑ دی جائے۔ چنانچہ اس کا ذکر اس مناسبت سے شروع کردیا کہ : (ذلکما مما علمنی ربی انی ترکت ملۃ قوم لا یومنون باللہ وھم بالاخرۃ ھم کافرون) یعنی خواب کی تعبیر میں بہت جلد بتلا دوں گا۔ کیونکہ میرے پروردگار نے مجھے اس کا علم دیا ہے، لیکن میرے علم کو اس طرح کا علم نہ سمجھنا، جس طرح اپنے کاہنوں اور جادوگروں کا سمجھا کرتے ہو۔ میری راہ دوسری ہے، میں تمہارے طریقہ پر کار بند نہیں، پھر اس طرح بات میں سے بات نکلاتے ہوئے دین حق کی دعوت شروع کردی کہ (یصاحبی السجنء ارباب متفرقون خیر ام اللہ الواحد القھار) پھر دیکھو۔ اس سیرت کی فضیلت کا کیسا عجیب منظر سامنے آجاتا ہے جب بادشاہ مصر خواب دیکھتا ہے اور سردار ساقی آکر یہ معاملہ انہیں سناتا ہے۔ دنیا کا ہر انسان ایسے موقع پر کیا کرتا؟ دنیا کو ہر وہ قیدی کیا کرتا جسے بغیر کسی جرم و گناہ کے قید خانے میں ڈال دیا گیا ہو اور سالہا سال سے اس حالت میں بے یارو مددگار پڑا ہو؟ یقینا اسے تائید غیبی سمجھ کر اس سے فائدہ اٹھانا چاہتا اور کہتا میں یہ مشکل حل کرسکتا ہوں۔ مجھے یہاں سے نکلنے اور بادشاہ کے حضور حاضر ہونے کا موقع دیا جائے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت یوسف کی جانب سے کوئی اس طرح کی خواہش ظاہر نہیں ہوئ۔ انہوں نے خواب سنتے ہی اس کی تعبیر بیانن کردی، اس کا خیال بھی انہیں نہیں گزرا کہ اپنی مطلب براری کی یہ نہایت قیمتی بات تھوڑٰ دیر کے لیے بھی روک لوں، پھر صاف اتنا ہی نہیں کیا کہ جتنی بات پوچھی گئی تھی بتلا دی بلکہ اس سے بھی زیادہ علم و فضل کی بخشش سائل کے دامن میں ڈال دی، یعنی خواب میں ایک آنے والی ہولناکی کی خبر دی گئی تھی، انہوں نے تعبیر کے ساتھ یہ بھی بتلا دیا کہ اس ہولناک مصیبت سے بچنے کی سبیل کیا ہوسکتی ہے۔ سوال بادشاہ کی طرف سے تھا، لیکن دیکھو جس نے جواب دیا وہ قید خانہ کی کوٹھری میں بیٹھا ہوا اپنے علم و فضیلت کی بخشش میں بادشاہوں سے بھی زیادہ فیاض تھا : عدیل ہمت ساقی ست فطرت عرفی۔۔۔ کہ حاتم و گراں و گدائے خویشتن ست ! حضرت یوسف نے ایسا کیوں کیا؟ اس لیے کہ دنیا نے ان کے ساتھ کچھ ہی کیا ہو وہ دنیا کی خدمت و ہدایت کے سوا اور کوئی شے اپنے سامنے نہیں رکھ سکتے تھے۔ جب انہوں نے خواب سنا اور خواب کا حل ان کے علم و بصیرت نے معلوم کرلیا تھا تو وہ ایک لمحہ کے لیے بھی علم و ہدایت کا فیضان انسان پر نہیں روک سکتے تھے۔ ان کا فرض تھا کہ جب کبھی طلب اعانت کا ہاتھ ان کے آگے بڑھے وہ اس کی دستگیری کریں۔ اور انہوں نے دستگیری کی، اگر نہ کرتے تو داعی حق نہ ہوتے، ان کا بے لوث جذبہ خدمت اس خود غرضانہ مطلب براری کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا کہ ایک انسان کی مشکل اور احتیاج کو اپنی رہائی کا ذریعہ بنائیں۔ پھر جب بادشاہ کا مشتاق ہوا اور اپنا پیام بر بھیجا تو چاہیے تھا کہ جوش مسرت سے اس پیام کا استقبال کرتے کیونکہ اب خود بخود رہائی سامنے آگئی تھی اور ایسی حالت میں آئی تھی کہ بادشاہ وقت مشتاق زیارت ہو رہا تھا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت یوسف کی نگاہوں میں معاملہ نے دوسری ہی شکل اختیار کی۔ انہوں نے قید خانہ چھوڑنے اور بادشاہ کی ملاقات سے انکار کردیا اور کہلایا کہ پہلے میرے معاملہ کی تحقیقات کرلی جائے۔ اب یہاں پھر بے اختیار یہی سوال سامنے آجاتا ہے کہ دنیا کا ہر مظلوم قیدی ایسی حالت میں کیا کرتا اور اس پیکر صدق و صفا نے کیا کیا؟ غور کرو، ان کی سیرت کیسے جوہروں سے گوندھی گئی تھی اور کس طرح صبر و ضبط کی عدیم النظیر قوتوں کے ساتھ خود داری اور عزت نفس کی روح اس کے ایک ایک ذرہ میں رچی ہوئی تھی؟ حضرت یوسف کے اس انکار و انتظار میں ان کی اخلاقی ذہنیت کی ایک پوری دنیا پوشیدہ ہے۔ گویا وہ زبان حال سے کہہ رہے تھے کہ قید سے رہائی بلاشبہ ایک خوشخبری ہے لیکن ایسی رہائی مجھے کیا خوش کرسکتی ہے جو میری بے جرمی کی وجہ سے ظہور میں نہ آرہی ہو بلکہ محض بادشاہ کا ایک عطیہ اور بخشش ہو؟ میں تھا تو مجرم، لیکن چونکہ بادشاہ نے خواب دیکھا، کسی سے تعبیر بن نہ اائی میں نے بتلا دی، اس لیے خوش ہو کر بادشاہ نے رہا کردیا۔ پس یہ بادشاہ کا احسان ہوا، حق و انصاف کا فیصلہ نہ ہوا۔ نہیں میں اپنی رہائی بطور ایک احسان کے قبول نہیں کرسکتا اگر میں مجرم ہوں تو سزا وار ہوں، کیوں مجھے کوئی بخشے؟ اگر مجرم نہیں ہوں تو میری بے جرمی کا اعتراف کرنا چاہیے اور اس لیے رہا کرنا چاہیے کہ سزا کا مستحق نہ تھا، اس لیے نہیں کہ کسی نے بخش دیا۔ عزت نفس اور استقامت حق کا کیسا بلند مقام ہے؟ اور اخلاقی سیرت کی کیسی عجیب مضبوطی ہے، جس میں کہیں سے بھی کوئی لچک پڑتی دکھائی نہیں دیتی؟ جس رخ سے دیکھو اور جہاں کہیں دیکھو اس کی بے داغ خصوصیتیں یکساں طور پر نمایاں ہیں اور اس سورج کی روشنی کبھی مدھم نہیں پڑسکتی۔ کانہ علم، فی راسہ نار۔ فی الحقیقت جمال یوسف کی یہی رعنائیاں تھیں جنہوں نے ایک ہی نظارہ میں بادشاہ کا دل مسخر کرلیا تھا : (انک الیوم لدینا مکین امین) پھر سب سے آخر میں اس موقع کا مطالعہ کرو جب حضرت یوسف کے بھائی ان کے سامنے آکھڑے ہوتے ہیں۔ کون بھائی؟ جنہوں نے قتل کا سامان کیا اور پھر غلام بنا کر اجنبیوں کے ہاتھ بیچ ڈالا، کس کے سامنے؟ اسی مظلوم کے سامنے جو آج مظلوم نہیں ہے بلکہ وقت کی سب سے بڑی مملکت کا مالک اور قحط سسالی کی سب سے بڑی مصیبت میں سامان زندگی کا بخشنے والا ہے۔ کیسا عجیب موقع تھا اور نفس انسانی کے لیے ولولہ انتقام کی کیسی صبر آزما آزمائش؟ تاہم غور کرو، اول سے لے کر آخر تک حضرت یوسف کا طرز عمل کیسا رہتا ہے؟ کہیں بھی کوئی بات ایسی دکھائی دیتی ہے کہ کہہ سکو، بغض و انتقام کے جذبہ کی کوئی ہلکی سی بھی پرچھائیں پڑ رہی ہے؟ اتنا ہی نہیں بلکہ وہ تو ان کے لیے سرتا پا شفقت و رحمت ہوگئے تھے۔ انتقام و سرزنش کا کیا ذکر ہے۔ ان کی زبان سے تو ایک لفظ بھی ایسا نہیں نکلا جس سے بھائیوں کے د لوں کو ذرا سی بھی ٹھیس لگتی۔ صاف نظر آرہا ہے کہ ان کی شرمندگی و پشیمانی کا زخم ان سے کہیں زیادہ خود ان کے دل پر لگ رہا ہے اور اب فکر ہے تو اس بات کی کہ کس طرح ان کے دلوں کے لیے تسکین خاطر کے سامان پیدا کردیں۔ جب تیسری مرتبہ بھائی آئے اور اپنی مصیبتوں کی داستان سنائی : (مسنا واھلنا الضر) اور پھر دست سوال بڑھایا کہ (وتصدق علینا ان اللہ یجزی المتصدقین) تو جوش محبت سے بے قرار ہوگئے۔ اس وقت ان کے سامنے اور کوئی بات نہ تھی، صرف یہ تھی کہ میرے بھائی فقرو فاقہ میں مبتلا ہیں۔ میں مسند عزت پر بیٹھا ہوں اور وہ دریوزہ گروں کی طرح دست سوال دراز کیے ہوئے ہیں۔ بے اختیار ان کا جی چاہا کہ اپنے آپ کو ظاہر کردیں۔ (ھل علمتم ما فعلتم بیوسف واخیہ) تمہیں وہ بات بھی یاد ہے جو یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کی تھی َ؟ کہنے کو تو یہ کہ گئے اور یہ کہے بغیر چارہ بھی نہ تھا، کیونکہ یاد دلانا تھا کہ میں مصر کیونکر پہنچا، لیکن معا خیال ہوا کہ اس معاملہ کی یاد میں ان کے لیے سرتا سر سرزنش و خجالت ہے، اس لیے فورا ایک ایسی بات بھی کہہ دی کہ ان کے لیے ایک معذرت کا پہلو نکل آئے اور شرمندگی کا بوجھ محسوس نہ کریں : (اذ انتم جاھلون) یہ اس وقت کی بات ہے جب تمہاری نادانیوں کا زمانہ تھا، یعنی اس معاملہ پر شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں، کیونکہ نادانیوں کے زمانے کی ایک بات ہے اور دنیا میں کون ہے جس پر کوئی نہ کوئی زمانہ نادانیوں کا نہ گزرا ہو؟ یہ سنتے ہی جب انہوں نے پہچان لیا اور عجز و ندامت کا سر جھکا کر بولے : (تال اللہ لقد اثرک اللہ علینا وان کنا لخاطئین) تو بلا تامل جواب ملا : (لا تثیر علیکم الیوم یغفر اللہ لکم وھو ارحم الراحمین) نہیں آج کا دن بچھڑے ہوؤں کے ملنے اور ٹوٹے ہوئے رشتوں کے جڑنے کا دن ہے۔ ملامت و الزام کی باتوں کا یہاں گزر نہیں، میرا دل تو ہر طرح کی رنجشوں سے صاف ہے، باقی رہا خدا کا معاملہ تو اس کے لیے بھی میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں، وہ تمہارے سارے قصور بخش دے اور وہ ضرور بخش دے گا کیونکہ اس سے بڑھ کر رحم کرنے والا اور کون ہے۔ پھر آگے چل کر جب وقت آیا کہ اللہ کے فضل و کرم کا شکر ادا کرتے ہوئے گزرے ہوئے واقعات کی طرف اشارہ کریں تو دیکھو اس معاملہ کی طرف کیونکر اشارہ کرتے ہیں؟ (من بعد ان نزغ الشیطان بینی وبین اخوتی) جب ایسا ہوا تھا کہ شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں اختلاف ڈال دیا تھا۔ یعنی اول تو اس معاملہ کو شیطان کی طرف منسوب کردیا کہ بھائیوں پر اس کا بوجھ نہ پڑے۔ گویا یہ شطیان کا ایک فتنہ تھا اور نہ میرے بھائی ایسا کیوں کرتے۔ پھر سارے معاملہ کو محض ایک طرح کے اختلاف سے تعبیر کیا تاکہ اصل واقعہ کی شناعت کم ہوجائے۔ پھر جتنا کچھ بھی ہونا ظاہر کیا، وہ اس طریقہ پر کیا کہ مجھ میں اور میرے بھائیوں میں اختلاف پڑگیا تھا گویا یہ بھائیوں کا بلاوجہ جو روستم نہ تھا، کوئی ایسی بات تھی جیسے بھائیوں میں باہم دگر پیش آجایا کرتی ہے اور دونوں جانبوں کو اختلاف کے وجوہ میں دخل ہوتا ہے یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ کسی ایک ہی جانب کا قصور تھا۔ غور کرو عفو و بخشش کا وہ کیسا مقام ہے، ہمت کا وہ کیسا علو ہے، ظرف کی وہ کیسی پہنائی ہے ؟ خلق کی وہ کیسی عظمت ہے جو دشمنی کرنے والوں کے ساتھ ایسا سلوک کرسکتی ہے ؟ اور جس سیرت کا یہ حال ہو اس کے لیے فضیلت کی اور کون سی بات باقی رہ گئی؟ شنیدم کہ مردان راہ خدا۔۔۔۔ دل دشمناں ہم نہ کردند تنگ ترا کے میسر شود ایں مقام۔۔۔۔ کہ باد و ستانت خلاف است او جنگ مظلومی و بے چاری کی حالت میں صبر کرلینا بلاشبہ ایک بڑائی ہے لیکن طاقت و اختیار کی حالت میں بدلہ نہ لینا اور بخش دینا سب سے بڑی بڑائی ہے : (ولمن صبر وغفر ان ذلک لمن عزم الامور) اور اس سیرت کی عظمت میں دونوں مقام جمع ہوگئے، جب بے چار گی تھی تو اف تک نہ کی۔ جب طاقت ملی تو انتقام کا وہم و گمان بھی نہ گزرا، اور بلاشبہ یہ اس زندگی کا سب سے بڑا اسوہ حسنہ ہے۔ سب سے آخر میں ان کی دعا نمایاں ہوتی ہے اور یہ فی الحقیقت ایک مرقع ہے جس میں ان کی سیرت کا ایک ایک خالی و خط دیکھا جاسکتا ہے۔ عظمت و کامرانی کے اس مقام پر پہنچ جانے کے بعد بھی جو صدا ان کے دل و دماغ سے نکل سکتی تھی وہ یہی تھی کہ (فاطر السموات والارض انت ولی فی الدنیا والاخرۃ توفنی مسلما والحقنی بالصالحین) یعنی زندگی کی ساری کامرانیوں کا آخری ماحصل جس کی طلب و آرزو سے کبھی دل خالی نہیں ہوسکتا یہی ہے کہ اطاعت حق پر خاتمہ ہو اور الحاق ان کے ساتھ ہو جو تیرے صالح بندے ہیں۔ امرۃ العزیز : حضرت یوسف کے بعد سرگزشت کی نمایاں شخصیت امرۃ العزیز کی شخصیت ہے۔ کیونکہ حضرت یوسف کی مصری زندگی کے حوادث میں بڑا حصہ اسی کا ہے۔ اس شخصیت میں ہم دیکھتے ہیں کہ عشق وہوس کے مختلف مراتب یکے بعد دیگرے نمایاں ہوئے ہیں اور قرآن حکیم نے ایک عجیب اسلوب بلاغت کے ساتھ انہیں ہر جگہ ابھارا ہے اور ہر مرتبہ کی خصوصیت واضح کردی ہے۔ سب سے پہلے وہ موقع سامنے آتا ہے جب اس نے حضرت یوسف کو دعوت عیش دی اور ناکام رہی۔ (ولقد ھمت بہ وھم بھا لولا ان رابرہان ربہ) اور جب پردہ فاش ہوگیا اور شوہر سامنے کھڑا نظر آیا تو اپنی ذلت و رسوائی برداشت نہ کرسکی۔ جھٹ اپنا جرم دوسرے کے سر ڈال دیا، اور پھر کس دوسرے کے سر؟ اسی کے سر جس کی محبت و شیفتگی کی مدعی بنی تھی۔ (قالت ماجزاء من اراد باھلک سوء الا ان یسجن او عذاب الیم) اس سے معلوم ہوا کہ محبت میں بھی کچی تھی، اور ہوس سے معاملہ آگے نہیں بڑھا تھا، کیونکہ اگر محبت کامل ہوتی تو محبت کی راہ میں ذلت و رسوائی سے نہ ڈرتی اور خود اپنے محبوب کے سر جھوٹا الزام نہ لگاتی۔ لیکن پھر جب کچھ دن گزر گئے تو معلوم ہوتا ہے اس حالت نے دوسرا رنگ اختیار کیا۔ اب اسے لائمات کے سامنے تو اقرار محبت میں عار نہ آیا۔ لیکن دنیا کے آگے اقرار نہ کرسکی۔ (انا راودتہ عن نفسہ فاستعصم) ساتھ ہی محبت ابھی اس درجہ تک نہیں پہنچی تھی کہ اپنے نفس کا مجوئیوں پر محبوب کی مرضی کو ترجیح دیتی۔ قبول خاطر معشق شرط دیدار است۔۔۔۔ بہ حکم شوق تماشا مکن کہ بے ادبی است ! اس لیے دھمیاں دے کر رام کرنا چاہا : (ولئن لم یفعل ما امرہ لیسجنن ولیکونا من الصاغرین) لیکن پھر جب وہ وقت آیا کہ عشق کی خامیاں پختگی و کمال تک پہنچ گئیں تو اب نہ تو ننگ و ناموس کی جھجک باقی رہی تھی نہ زور و طاقت سے کان نکالنے کا گھمنڈ، جونہی سنا کہ یوسف کے معاملہ کی پوچھ گچھ ہورہی ہے بے پردہ صریح اعلان کردیا : (الئن حصحص الحق انا راودتہ عن نفسہ وانہ لمن الصدقین) وہ تو سرتاسر سچا ہے جو کچھ بھی قصور تھا میرا تھا : ہاں بانگ بلندست این، پوشیدہ نمی گوی۔ اب اقرار محبت میں نہ تو کسی طرح کا عار محسوس ہوتا تھا نہ عشق کی ذلت و رسوائی ذلت رہی تھی، اب تو ہر بات جو محبوب کی راہ میں پیش آئے محبوب ہی کی طرح محبوب ہوگئی تھی : اجد الملامۃ فی ھواک لذیذۃ۔۔۔۔ حبا لذکرک فیلمنی اللوم ! محبت کی خامی و پختگی کے یہ مراتب قدرتی ہیں اور عام ہیں جب کبھی اور جہاں کہیں بھی آئیں گے ان تین حالتوں میں سے کوئی حالت ضروری ہوگی : خام بودم، پختہ شدم، سوختم ! تاویل الاحادیث : حضرت یوسف کے حالات میں جابجا تاویل الاحادیث کا لفظ آیا ہے اور اس طرح آیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک علم تھا جو اللہ نے انہیں سکھا دیا تھا، پس معلوم ہونا چاہیے کہ اس علم سے مقصود کون سا علم ہے ؟ عربی میں تاویل کے معنی کس بات کے نتیجہ اور مآل کار کے ہیں اور باتوں کے مطلب و مقصد پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ چنانچہ سورۃ یونس کی آیت (٣٩) کے نوٹ میں اس کی تشریح گزر چکی ہے، احادیث یعنی باتیں، پس تاویل الاحادیث کا مطلب یہ ہوا کہ باتوں کا مطلب، نتیجہ اور مآل، بوجھ لینے کا علم یعنی انسان میں علم و بصیرت کی ایسی قوت کا پیدا ہوجانا کہ ہر بات کے مطلب اور مآل کا شناسا ہوجائے۔ معاملات کی تہہ تک پہنچ جانا، امور و مہمات کے بھیدوں کارمز شناس ہوجانا، ہر بات کی نبض پہچان لینی، ہر واقعہ کا مطلب پالینا، کوئی بات کتنی ہی الجھی ہوئی ہو لیکن اس طرح سلجھا لینا کہ ساری باتوں کی کل ٹھیک بیٹھ جائے۔ حضرت یوسف کا ظہور کنعان کے صحرا میں ہوا تھا اور ایک ایسے خاندان میں جو پشت ہا پشت سے صحرا کی بدودیانہ زندگی بسر کر رہا تھا۔ پیدائش سے لے کر عنفوان شباب تک اسی عالم میں زندگی بسر ہوئی۔ نہ تو کسی طرح کی خارجی تعلیم و تربیت کا موقع ملا، نہ شہری زندگی کے رسم و راہ سے آشنا ہوسکے، جب شہری زندگی ہی سے آشنا نہ تھے تو ظاہر ہے اجتماعی زندگی کی تمدنی خصوصیات سے کیونکر باخبر ہوسکتے تھے؟ ملکی معاملات اور انتظامی مہمات کی تو ان کے کانوں میں بھنک بھی نہ پڑی ہوگی۔ بسا اوقات خاندان کے موروثی اثرات خارجی اثرات سے بے نیاز کردیتے ہیں لیکن حضرت یوسف کا خاندانی ورثہ نبوت تھا۔ شہریاری و ملک داری نہ تھی، اور حضرت ابراہیم کے توطن کنعان کے بعد سے تو شہری زندگی کا علاقہ بھی یک قلم مفقود ہوگیا تھا۔ بایں ہمہ جب گردش حوادث نے انہیں مصر جیسی متمدن سرزمینن میں پہنچا دیا تو وہ نہ صرف اس کے نظم و نسق کے لیے سب سے بہتر حکمراں ثابت ہوئے بلکہ ان کی کاروانی و حقائق فہمی نے مملکت کو اس کی سب سے بڑی ہولناک بربادی سے بچا لیا اور ان کے فضل و کمال کے آگے سب نے سر جھکایا۔ خود پادشاہ وقت کو اپنے عجز و درماندگی کا اعتراف کرنا پڑا۔ ایک ایسے شخص میں جو ابھی چند سال ہوئے، صحرا کے ویرانوں سے نکل کر آیا تھا یہ قوت علمی کیسے پیدا ہوگئی کہ تمام باتوں کا نبض شناس اور تمام معاملات و مہمات کی کل بٹھانے ولا ہوگیا۔ یقینا مبدء فیاض کے کرشمہ فیضان سے، لیکن اس کرشمہ فیضان کا نام کیا ہے۔ علم تاویل الاحادیث کا سکھا دینا، اب جبکہ صناعی علوم کی تدوین اور فنی مصطلحات کی بناوٹوں نے ہمیں طرح طرحح کی تعبیرات سکھا دی ہیں ہم اس طرح کے علم و بصیرت کے لیے بہت سے مصلطحہ الفاظ بولیں گے، لیکن قرآن کی زبان صناعی مصطلحات کی زبان نہیں ہے، نہ علمی مصطلحات سے اس وقت عربی زبان آشنا ہوئی تھی۔ اس نے ان ساری باتوں کے لیے ایک ایسی ترکیب استعمال کیا جو ادائے مطلب کا قدرتی اور سیدھا سادھا اسلوب ہوسکتا ہے۔ یعنی باتوں کے مطلب اور مآل پالینے کا علم، تعلیم کی ساری کاوشیں، ترتیب ذہنی ساری محنتیں، تجربہ و اختیار کی ساری کوششیں کس غرض سے ہوتی ہیں؟ اسی لیے کہ باتوں مطلب و مآل بوجھ لینے کی استعداد پیدا ہوجائےْ علم و دانش کا تمام تر حاصل و مقصود کیا ہے؟ یہی کہ باتوں کی کل بٹھانی آجائے، جس کے لیے ہم نے بے شمار اصطلاحیں بنا لیں قرآن نے اسی کو بغیر کسی پیچ و خم کے اس طرح کہہ دیا جو ادائے مطلب کا یک صاف اور قدرتی طریقہ ہوسکتا ہے اور یہ اس کی بلاغت کی معجزانہ خصوصیت ہے۔ چونکہ حضرت یوسف نے خواب کی تعبیریں بتلائی تھیں اس لیے مفسرین اس طرف گئے ہیں کہ یہ خواب کی سچی تعبیر معلوم کرلینے کا علم تھا، بلاشبہ خواب کی بات بھی احادیث میں داخل ہے اور اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ ایک گوشت اس کا یہ ببھی تھا۔ لیکن یہ بات درست نہیں معلوم ہوتی کہ براہ راست علم تعبیر منام پر اس کا اطلاق ہوا ہو۔ یہ ظاہر ہے کہ خواب کی سچی تعبیر معلوم کرلینا نبوت کے عام خصائص میں سے ہے اور ہر نبی وحی الہی سے مطلع ہو کر خواب کی حقیقت معلوم کرلیتا ہے۔ خود حضرت یعقوب نے حضرت یوسف کا خواب سنتے ہی حقیقت معلوم کرلی تھی اور حضرت دانیال اور عزرا وغیرہما کی سرگزشتیں ہمیں معلوم ہیں۔ پس اگر یہی بات مقصود ہوتی تو اس کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ خصوصیت کے ساتھ تاویل الاحادیث کا ذکر کیا جاتا۔ یہ نبوت کے اعمال و خصائص میں سے تھی اور جب نبوت کا مقام مل رہا تھا تو لازمی طور پر اس طرح کی تمام باتوں کی قابلیت بھی مل رہی تھی۔ لیکن حضرت یعقوب نے خواب سن کر کہا : (وکذلک یجتبیک ربک ویعلمک من تاویل الاحادیث ویتم نعمتہ علیک وعلی ال یعقوب کما اتمھا علی ابویک من قبل) یعنی اللہ تجھے برگزیدگی عطا فرمائے گا تاویل الاحادیث کا علم سکھائے گا اور جس طرح تیرے بزرگوں پر اپنی نعمتیں پوری کرچکا ہے اسی طرح تجھ پر اور آل یعقوب پر بھی کرے گا۔ اس بیان میں برگزیدگی سے مقصود امتیاز اور تفوق ہے اور اتمام نعمت سے مقصود نبوت ہے، پس تاویل الاحادیث کی تعلیم سے مقصود کوئی تیسری چیز ہونی چاہیے۔ اگر تعبیر خواب ہی کی بات ہوتی تو وہ حصول نبوت کی بشارت میں آگئی تھی، خصوصیت کے ساتھ الگ کر کے نہ دکھائی جاتی۔ علاوہ بریں ایک نبی کے لیے تعبیر خواب کا ملکہ کوئی ایسی بڑی بات نہیں کہ خصوصیت کے ساتھ اسے اللہ کا ایک خاص عطیہ قرار دیا جاتا۔ پھر اگر ان تینوں مقامات پر غور کیا جائے جہاں تاویل احادیث کا ذکر کیا گیا ہے تو یہ حقیقت اور زیادہ نمایاں ہوجاتی ہے لیکن اس کی تفصیل البیان میں ملے گی۔ عزیز مصر کا اپنی کے ساتھ معاملہ : عزیز مصر کا اپنی بیوی کے ساتھ معاملہ مفسرین کے لیے ایک حیرت انگیز معاملہ رہا ہے اور بعض مجبور ہوئے ہیں کہ طرح طرح کی دو راز کار توجہیں کریں۔ وہ کہتے ہیں اس پر اپنی بیوی کی بدچلنی بالکل واضح ہوگئی تھی۔ اس نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ (انہ من کیدکن ان کیدکن عظیم) لیکن پھر بھی ہم دیکھتے ہیں اس نے اس معاملہ کو زیادہ اہمیت نہ دی کہ بیوی سے کہا : (استغفری لذنبک انک کنت من الخاطئین) اور پھر اسی طرح مختار و آزاد چھوڑ دیا جس طرح پہلے تھی، چنانچہ شہر کی عورتوں کی دعوت، مجلس طرب کی آراستگی اور حضرت یوسف کی طلبی سب بعد کے واقعات ہیں۔ نیز اس کا اختیار و تصرف اس سے ظاہر ہے کہ قید کرنے کی دھمکی دیتی ہے اور اسے پورا کر کے دکھا دیتی ہے۔ گویا بیوی کی بدچلنی کوئی ایسی بات نہ تھی جو عزیز کو (استغفری لذنبک) کہنے سے زیادہ کسی سرزنش اور مخالفانہ اقدام پر آمادہ کرتی۔ کیونکر ممکن ہے کہ ایک شریف اور معزز آدمی اس بارے میں اس قدر بے حس اور بے پروا واقع ہو؟ لیکن اگر مفسرین کے سامنے اس عہد کی مصری معاشرت کی تفصیلات ہوتیں تو اس معاملہ پر انہیں ذرا بھی استغراب نہ ہوتا۔ انہوں نے دو ڈھائی ہزار پیشتر کی مصری معاشرت اور اس کے اخلاقی احساسات کو اپنے وقتوں کی معاشرت و احساسات پر قیاس کیا اور اسی کے مطابق توجیہات کے جامے تراشنے لگے۔ اس بارے میں ہمارے پاس معلومات حاصل کرنے کے دو ذریعے ہیں، ایک براہ راست اسی زمانے سے تعلق رکھتا ہے۔ دوسرا بعد کے عہدوں سے۔ پہلا اثریات مصر (اجپٹیالوجیا) سے ماخوذ ہے۔ دوسرا بعض یونانی تحریرات سے جوسنہ مسیحی سے کچھ عرصہ بیشتر لکھی گئی ہیں۔ اور یہ دونوں ذریعے اس بارے میں متفق ہیں کہ اس عہد کی مصری معاشرت کی حالت ٹھیک ٹھیک ویسی ہی تھی جس کی تصویر اس موقع پر قرآن نے کھینچ دی ہے۔ یعنی امراء کے طبقہ کی معاشرتی اور ازدواجی حالت عامۃ الناس سے بالکل مختلف تھی۔ ان کی عورتیں اپنے اعمال و تصرف میں بالکل آزاد تھیں۔ مردوں کے دباؤ میں رہنا پسند نہیں کرتی تھیں۔ ازدواجی زندگی میں پلہ انہی کا بھاری رہتا، اخلاقی حیثیت سے معاملہ نے ایسی صورت اختیار کرلی تھی کہ عصمت و بے عصمتی کا معاملہ عملا غیر اہم ہوگیا تھا۔ لوگ سب کچھ جانتے تھے اور پھر اسے جاگزیر سمجھ کر برداشت کرلیا کرتے تھے۔ گویا اس اعتبار سے پندرہ سو سال قبل مسیح مصری سوسائٹی کا حال ٹھیک ٹھیک ویسا ہی تھا جیسا ایک ہزار سال بعد رومۃ الکبری کے دار الحکومت میں ہمیں دکھائی دیتا ہے اور جس کا نمونہ خود جولیس سیزر کی بیویوں کی زندگی میں ہم دیکھ سکتے ہیں۔ انہیں شک و شبہ سے اس لیے بالاتر کہا گیا تھا کہ شک و شبہ کا سب سے بڑا محل انہی کی زندگی تھی۔ دراصل یونان اور روم کا تمدن، اور بہت سی باتوں کی طرح اس بات میں بھی بابل اور مصر ہی کے نقش قدم پر چلا تھا۔ مصر کی یہ حالت برابر رہی، امراۃ العزیز کے عہد سے لے کر کلیو پیٹرا تک وہ صرف نسوانی حسن و جمال ہی میں نہیں بلکہ ازدواجی زندگی کی بے باکیوں اور مطلق العنانیوں میں بھی شہرہ آفاق رہا۔ خود اس سرگزشت میں بھی اس کی اندرونی شہادت موجود ہے۔ عزیز پر جب معاملہ کھل گیا تو جو بات اس کی زبان پر بے اختیار آگئی غور کرو، وہ کیا تھی؟ (انہ من کیدکن ان کیدکن عظیم) ہاں معلوم ہوگیا یہ تم عورتوں کا چرتر ہے، تم لوگوں کے چرتر بڑے ہی چرتر ہوتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ اس وقت عورتوں کی نسبت سوسائٹی کے عام خیالات کیا تھے اور کس طرح یہ بات دلوں میں بیٹھی ہوئی تھی کہ مکرو فریب میں طاق ہیں، ان کے فریب سے عہدہ بر آ ہونا آسان نہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ اس موقع پر اس طرح کی بات بے اختیار عزیز کی زبان سے نکل جاتی، چرتر جو کچھ بھی کیا تھا اس کی بیوی نے کیا تھا، تمام عورتوں نے نہیں کیا تھا، لیکن چونکہ وقت کی معاشرتی زندگی عام طور پر ایسی ہی ہورہی تھی اس لیے جب ایک عورت کا معاملہ سامنے آیا تو بے اختیار زبان سے نکل گیا، تم سب کا یہی حال ہے۔ تمہارے مکرو فریب سے خدا کی پناہ۔ پھر بعد کو جو معاملہ پیش آیا اس سے بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ اس بارے میں وقت کے نسوانی اخلاق کا معیار کیا تھا؟ شہر کی امیر زادیوں نے جونہی یہ خبر سنی کہ ایک عبرانی غلام ایسا طرحدار ہے کہ امراۃ العزیز جان دینے لگی ہے اور وہ قابو میں نہیں آتا بے اختیار اس سے ملنے کی مشتاق ہوگئیں اور پھر جب مجلس ضیافت آراستہ ہوئی اور یوسف بلائے گئے تو کوئی نہ تھا جس نے اپنی دلربائیوں اور رشوہ طرازیوں کے بے باکانہ تیروں سے انہیں چھلنی نہ کرنا چاہا ہو۔ ظاہر ہے کہ سوسائٹی کی عورتوں کا اس طرح بے حجابانہ کھل کھیلنا اور بغیر کسی جھجک کے ایک پوری مجمع کا اظہار عشق کرنا جبھی ہوسکتا ہے جبکہ لکھنو کی اصطلاح میں شوقینی وقت کا فیشن ہوگئی اور شوقین عورتیں پوری طرح آزاد ہوں۔ پس عزیز کے طرز عمل کے لیے اس کے سوا اور کسی توجیہ کی ضرورت نہیں کہ مصر کے ایک امیر کا طرز عمل تھا اور اسے ایسا ہی ہونا تھا، اس نے بیوی کو ملامت کردی کہ قصور تیرا ہی ہے، یوسف سے کہا اس بات کو اور آگے نہ بڑھانا اور معاملہ ختم ہوگیا۔ اس سے زیادہ نہ تو وہ کچھ کرسکتا تھا اور نہ وقت کے احساسات متقاضی تھے کہ کرے۔ تفسیر ان کیدکن عظیم : عزیز کے اس قول میں کہ ان کیدکن عظیم۔ جو رائے ظاہر کی گئی ہے وہ ظاہر ہے کہ اپنے وقت اور اپنے شہر کی عورتوں کی نسبت ہے، نہ کہ دنیا جہان کی تمام عورتوں کے لیے، اور پھر جو کچھ بھی ہے عزیز کا قول ہے۔ خود قرآن کا حکم نہیں ہے، لیکن افسوس ہے کہ لوگوں نے اس مقولہ کا اس طرح استعمال شروع کردیا، گویا عورتوں کے جنسی اخلاق کے لیے یہ قرآن کا فیصلہ ہے اور اس کے نزدیک عورتوں کی جنس مردوں کے مقابلہ میں زیادہ مکار اور بے عصمتی کی گھاتیں نکالنے میں زیادہ ہوشیار رہے۔ چنانچہ عام طور پر ہمارے مفسروں نے اس کا ایسا ہی مطلب قرار دیا ہے اور پھر حسب عادت و جوہ و مباحت کی دور دراز وادیوں میں گم ہوگئے ہیں۔ پہلے اسے عورتوں کی جنس کی نسبت قرآن کا عام و مطلق حکم قرار دیتے ہیں۔ پھر حیرانی میں پڑتے ہیں کہ شیطان کے کید کو تو ضعیف کہا ہے : (ان کید الشیطان کان ضعیفا) عرتوں کا کید کیسے عظیم ہوگیا؟ پھر تو جہیوں کی وادیوں میں قدم اٹھاتے ہیں اور جہاں تک نکل سکتے ہیں نکل جاتے ہیں۔ بعضوں کو مان لینا پڑتا ہے کہ شیطان کے کید سے بھی عورتوں کا کید بڑا ہے۔ کیونکہ آیت اس بارے میں نص قطعی ہے۔ بعضوں کی دقیقہ سنجی اس پر مطمئن نہیں ہوتی۔ وہ کہتے ہیں نہیں علی الاطلاق نہیں ہوسکتا، صرف جنسی تعلقات کے معاملہ میں ہے، اس میدان میں مرد انن سے بازی نہیں لے جاسکتے۔ حالانکہ نہ تو قرآن کا یہ حکم ہے، نہ عزیز کا قول ایسے محل میں ہے کہ اطلاق و عموم کے یہ سوالات پیدا ہوں۔ بحث و تفسیر کی یہ پوری عمارت بنیاد سے لے کر چوٹی تک بالکل بے اصل ہے۔ بلاشبہ مردوں نے اپنی ظالمانہ خود غرضیوں سے عورتوں کے بارے میں ہمیشہ ایسے ہی فیصلے کیے ہیں لیکن قراان کا یہ فیصلہ نہیں ہے۔ اس نے ہر جگہ مرد اور عورت دونوں کا مساویانہ حیثیت سے ذکر کیا ہے اور فضائل و خصائل کے لحاظ سے وہ دونوں میں کسی طرح کی بھی تفریق نہیں کرتا۔ سورۃ نسا میں جہاں ازدواجی زندگی کے احکام کی تشریح ہے وہاں صاف صاف تصریح کردی ہے کہ فضائل و محاسن کے لحاظ سے دونوں یکساں طور پر اپن اپنی راہیں رکھتے ہیں اور دونوں کے لیے ایک ہی طرح پر فضیلتوں کا دروازہ کھول دیا گیا۔ (للرجال نصیب مما اکتسبوا ولنساء نصیب مما اکتسبن وسئلوا اللہ من فضلہ ان اللہ کان بکل شیء علیما) چنانچہ جس طرحح وہ نیک مردوں کے فضائل و مدارج بتلاتا ہے اسی طرح نیک عورتوں کے بھی بتلاتا ہے اور جس طرح بدعمل مردوں کی برائیاں بتلائی ہیں اسی طرح بدعمل عورتوں کی بھی بتلائی ہیں۔ کہیں بھی دونوں میں کسی طرح کا امتیاز اس نے جائز نہیں رکھا ہے۔ مردوں کے لیے اگر فرمایا : (التائبون العبدون الحمدون السائحون الراکعون السجدون الامرون بالمعروف والناھون عن المنکر والحفظون لحدود اللہ) تو عورتوں کے لیے بھی فرمایا : (مسلمات مومنات قانتات تائبات عابدات سائحات) منافقوں کا ذکر کیا تو صرف مردوں ہی کا نہیں کیا، دونوں جنسوں کا کیا : (المنفقون والمنفقت بعضھم من بعض یامرون بالمنکر وینھون عن المعروف) مومنوں کا ذکر کیا تو صرف مردوں ہی کا نہیں کیا دونوں کا کیا : (والمومنون والمومنت بعضھم اولیاء بعض یامرون بالمعروف وینھون عن المنکر) مردوں اور عورتوں کی یہ اخلاقی مساوات اس کا عام اسلوب ہے، ہر جگہ تم دیکھو گے کہ وہ دونوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کرتا، ایک ہی درجہ میں رکھتا اور ایک ہی طرح پر ذکر و خطاب کرتا ہے : (ان المسلمین والمسلمات والمومنین والمومنات والقنتین والقنتت والصدقین والصدقت والصبرین والصبرت والخشعین والخشعت والمتصدقین والمتصدقت والصائمین والصئمت والحفظین فروجھم والحفظت والذکرین اللہ کثیرا والذکرات اعد اللہ لھم مغفرۃ واجرا عظیما) یعنی جس طرح مردوں میں مسلم و مومن ہیں اسی طرح عورتوں میں بھی مسلمہ و مومنہ ہیں َ جس طرح مردوں میں قانت مرد ہیں اسی طرح عورتوں میں بھی قانۃ عورتیں ہیں۔ جس طرح مردوں میں صادق مرد ہیں اسای طرح عورتوں میں بھی صادقہ عورتیں ہیں، جس طرح مردوں میں اللہ کا خوف رکھنے والے اور بکثرت اس کا ذکر کرنے والے ہیں اسی طرح عورتوں میں بھی اللہ کا خوف رکھنے والیاں اور بکثرت ذکر کرنے والیاں ہیں، اور پھر جس طرح مردوں میں ایسے پاکباز ہیں کہ نفسانی خواہشوں کے غلبہ سے اپنی حفاظت کرتے ہیں اسی طرح عورتوں میں بھی ایسی پاکباز ہستیاں ہیں جو اپنی حفاظت سے کبھی غافل نہیں ہوتیں۔ غور کرو، کسی وصف میں بھی تفریق نہیں، کسی فضیلت میں بھی امتیاز نہیں، کسی بڑائی میں بھی عدم مساوات نہیں، پھر کیا ممکن ہے کہ جس قرآن نے مردوں اور عورتوں کی اخلاقی مساوات اس درجہ ملحوظ رکھی ہو اسی قرآن کا یہ فیصلہ ہو کہ عورتوں کی جنس مردوں کے مقابلہ میں زیادہ بداخلاق ہے؟ اور مرد بڑے پاکباز ہوتے ہیں مگر بدبخت عوتیں ہیں جو نفس پرست اور مکار ہیں؟ تفسیر قرآن کی تاریخ کی یہ کیسی بو العجمی ہے کہ ایک مصری بت پرست کے قول کو اللہ کا فرمان سمجھ لیا گیا، اور اس سے اس طرحح استدلال کیا جارہا ہے گویا عورتوں کی جنسی پستی و ابداخلاقی کے لیے کتاب اللہ کا قطعی فیصلہ موجود ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر پاکبازی و عصمت کے لحاظ سے دونوں جنسوں میں تفریق ہی کرنی ہو تو ہر طرح کی نفس پرستیوں اور مکاریوں کی حیوانیت مرد کے حصہ میں آئے گی اور ہر طرح کی پاکیوں اور عفتوں کی فرشتگی عورت کے لیے ثابت ہوگی۔ یہ مرد ہی ہے جس کی حیوانیت پر عورت کی فرشتگی شاق گزرتی ہے، وہ چاہتا ہے اسے بھی اپنی ہی طرح کا حیوان بنادے، اس لیے اپنے کید عظیم کے سارے فتنے کام میں لاتا اور برائیوں کی ایک ایک راہ سے اسے آشنا کر کے چھوڑتا ہے۔ پھر جب وہ اس کے پیچھے قدم اٹھا دیتی ہے تو اس سے گردن موڑ لیتا ہے اور کہنے لگتا ہے اس کا کید تو سب سے بڑا کید اور اس کی برائی تو سب سے بڑی برائی ہے۔ فی الحقیقت سب سے بڑا کید تو مرد ہی کا کید ہے جو پہلے اسے اپنی کا مجوئیوں کا آلہ بناتا ہے اور جب بن جاتی ہے تو خود پاک بنتا اور ساری ناپاکیوں کا بوجھ اس معصوم کے سر ڈال دیتا ہے۔ دنیا میں کوئی عورت بری نہ ہوتی اگر مرد اسے برا بننے پر مجبور نہ کرتا، عورت کی برائی کتنی ہی سخت اور مکروہ صورت میں نمایاں ہوتی ہو، لیکن اگر جستجو کرو گے تو تہ میں ہمیشہ مرد ہی کا ہاتھ دکھائی دے گا اور اگر اس کا ہاتھ نظر نہ آئے تو ان برائیوں کا ہاتھ ضرور نظر آئے گا جو کسی نہ کسی شکل میں اسی کی پیدا کی ہوئی ہیں۔ تورات میں ہے کہ شجر ممنوعہ کے پھل کھانے کی ترغیب آدم کو حوا نے دی تھی اس لیے نافرمانی کا پہلا قدم جو انسان نے اٹھایا وہ عورت کا تھا۔ اسی بنا پر یہوددیوں اور عیسائیوں میں یہ اعتقاد پیدا ہوگیا کہ عورت کی خلقت میں مرد سے زیادہ برائی اور نافرمانی ہے اور وہی مرد کو سیدھی راہ سے بھٹکانے والی ہے۔ لیکن قرآن نے اس قصہ کی کہیں بھی تصدیق نہیں کی بلکہ ہر جگہ اس معاملہ کو آدم اور حوا دونوں کی طرف منسوب کیا۔ انہیں جو حکم دیا گیا تھا وہ بھی یکساں طور پر دونوں کے لیے تھا : (ولا تقربا ھذہ الشجرۃ فتکونا من الظلمین) اور لغزش بھی ہوئی تو ایک ہی طرح دونوں سے ہوئی : (فازلھما الشیطن عنھا فاخرجھما مما کانا فیہ) شیطان نے دونوں کے قدم ڈگمگا دیے، اور دونوں کے نکلنے کا باعث ہوا۔ یعنی جو لغزش ہوئی اس میں یکساں طور پر دونوں کا حصہ تھا۔ یہ بات نہ تھی کہ کسی ایک پر دوسرے سے زیادہ ذمہ داری ہو۔ بہرحال یہ بات رہے کہ سورۃ یوسف کی اس آیت سے جو استدلال کیا جارہا ہے وہ قطعا بے اصل ہے اور جہاں تک عورتوں کے جنسی اخلاق کا تعلق ہے قرآن میں کہیں ایسی بات موجود نہیں جس سے مترشح ہوتا ہو کہ عورت کی جنس مرد سے فروتر ہے یا بے عصمتی کی راہوں میں زیادہ مکارم اور شاطر ہے۔ امراۃ العزیز کا نام : تورات میں ہے کہ مصر کے جس امیر نے حضرت یوسف کو خریدا تھا اس کا نام فوطی فا رتھا (پیدائش : ٣٦: ٣٧) لیکن اس کی بیوی کا نام نہیں لکھا ہے نہیں معلوم ہمارے مفسرین نے کہاں سے یہ بات معلوم کرلی کہ اس کا نام زلیخا تھا؟ بہرحال اس کی کوئی قابل اعتنا اصلیت پائی نہیں جاتی۔ البتہ مفسرین کا یہ بیان بالکل صحیح ہے کہ اس وقت مصر کا حکمراں خاندان عمالقہ میں سے تھا۔ یہ عمالقہ وہی ہیں جنہیں مصر کی تاریخ میں ہیکسوس کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے اور جن کی اصلیت یہ بتائی گئی ہے کہ چرواہوں کی ایک قوم تھی، یہ چرواہوں کی قوم مصر میں کہاں سے آئی تھی؟ جدید تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب سے آئی تھی اور یہ دراصل عربی قبائل عاربہ ہی کی ایک شاخ تھی۔ قدیم قبطی اور عربی زبان کی مشابہت ان کے عرب ہونے کی ایک مزید دلیل ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا انتقال : تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف زندگی بھر مصر کے حکمران و مختار رہے اور جب ان کا آخری وقت آیا تو اپنے بھائیوں اور اپنی اولاد سے کہا، ایک وقت آئے گا جب خدا تمہیں پھر اسی زمین کنعان میں لے جائے گا، جس کا ابراہیم، اسحاق اور یعقوب سے اس نے وعدہ کیا ہے، تو جب وہ وقت آئے تم میری ہڈیاں اپنے ساتھ لے جانا اور میرے بزرگوں کے پاس دفن کردینا، چنانچہ ان کے خاندان کے لوگوں نے ان کی نعش میں خوشبو بھری اور ایک صندوق میں محفوظ کردی۔ (پیدائش : ٢٤: ٥٠) خوشبو بھرنے کا غالبا مطلب یہ ہے کہ مصریوں کے طریقہ کے مطابق ممی کر کے رکھی گئی تھی۔ جب چار سو برس بعد حضرت موسیٰ کا ظہور ہوا اور وہ بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر مصر سے نکلے تو انہوں نے حضرت یوسف کی نعش بھی اپنے ساتھ لے لی تھی، اس طرح حضرت یوسف کی وصیت کی تعمیل ظہور میں آگئی۔ سورۃ یوسف کے بصائر و حکم کی طرح اس کے مباحث ومسائل کا دائرہ بھی بہت وسیع ہے، لیکن مزید تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں۔