وَدَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَيَانِ ۖ قَالَ أَحَدُهُمَا إِنِّي أَرَانِي أَعْصِرُ خَمْرًا ۖ وَقَالَ الْآخَرُ إِنِّي أَرَانِي أَحْمِلُ فَوْقَ رَأْسِي خُبْزًا تَأْكُلُ الطَّيْرُ مِنْهُ ۖ نَبِّئْنَا بِتَأْوِيلِهِ ۖ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ
اور قید خانے میں اس کے ساتھ دو جوان داخل ہوئے، دونوں سے ایک نے کہا بے شک میں اپنے آپ کو دیکھتا ہوں کہ کچھ شراب نچوڑ رہا ہوں اور دوسرے نے کہا بے شک میں اپنے آپ کو دیکھتا ہوں کہ میں اپنے سر پر کچھ روٹی اٹھائے ہوئے ہوں، جس سے پرندے کھا رہے ہیں، ہمیں اس کی تعبیر بتا۔ بے شک ہم تجھے احسان کرنے والوں سے دیکھتے ہیں۔
حضرت یوسف کا دو قیدیوں کو ان کے خواب کی تعبیر بتلانا اور اسی کے مطابق ظہور میں آنا، پھر بادشاہ مصر کا ایک عجیب و غریب خواب دیکھنا اور مصر کے تمام دانشمندوں اور جادوگروں کا تعبیر سے عاجز ہونا اور بالآخر حضرت یوسف کو قید خانہ سے طلب کرنا۔ تورات میں ہے کہ یوسف نے ساقیوں کے سردار کو اس کے خواب کی تعبیر یہ بتلائی تھی کہ تین دن کے اندر فرعون تجھے تیرے منصب پر بحال کردے گاْ اور آگے کی طرح تو اس کے ہاتھ میں شراب کا جام دے گا۔ْ اور کہا تھا جب تو خوش حال ہو تو مجھے یاد رکھیو اور فرعون سے میرا کیجیو کہ لوگ عبرانیوں کے ملک سے مجھے چرا لائے اور یہاں بھی بغیر کسی قصور کے قید خانے میں ڈال دیا، اور نان پزوں کے سردار سے کہا تھا کہ تین دن کے اندر تیری موت کا فیصلہ ہوجائے گا اور تیری لاش درخت پر لٹکائی جائے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ تیسرے دن فرعون کی سالگرہ کا دن تھا، اس دن سردار ساقی بحال کردیا گیا مگر نان پزوں کے سردار کو سزا ہوئی۔ لیکن سردار ساقی نے بحال ہو کر یوسف کو یاد نہ رکھا، وہ یہ معاملہ بھول گیاْ (پیدائش : ٢٠، ١٢، ٤٠) چنانچہ حضرت یوسف کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، وہ کئی سال تک قید خانہ میں پڑے رہے۔ْ اس کے بعد وہ معاملہ آیا جس کی طرف آیت (٤٣) میں اشارہ کیا ہے۔ یعنی بادشاہ مصر نے ایک عجیب طرح کا خواب دیکھا اور جب دربار کے دانشمندوں سے تعبیر دریافت کی تو کوئی تشفی بخش جواب نہ دے سکے۔ تورات میں ہے کہ بادشاہ نے مصر کے تمام حکیموں اور جادوگروں کو جمع کیا تھا۔ مگر کوئی اس کی تعبیر بتلا نہ سکا۔ (پیدائش : ٨: ٤١) یہاں قرآن نے درباریوں کا جو جواب نقل کیا ہے اس کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب کوئی تشفی بخش بات معلوم نہ کرسکے تو کوشش کی کہ بادشاہ کے دل سے اس خواب کی اہمیت کا خیال نکال دیں، پس انہوں نے کہا، یہ کوئی روحانی بات نہیں ہے ویسے ہی پریشان خیالی سے طرح طرح کی باتیں سوتے میں نظر آگئی ہیں، لیکن سردار کو ساقی کو خواب کی بات سن کر اپنے خواب کا معاملہ یاد آگیا اور ساتھ ہی یہ بات بھی یاد آگئی کہ حضرت یوسف نے کیا کہا تھا؟ تب اس نے اپنا واقعہ بادشاہ کے گوش گزار کیا، اور قید خانہ میں جاکر حضرت یوسف سے ملا۔ حضرت یوسف نے فرمایا سات گایوں سے مقصود زراعت کے سات برس ہیں، آئندہ سسات برس تک بہت اچھی فصلیں ہوں گی، یہ گویا سات موٹی گائیں ہوئی، اس کے بعد سات برس تک متواتر قحط رہے گا۔ یہ سات دبلی گائیں ہوئیں، انہوں نے موٹی گائیں نگل لیں یعنی فراوانی کو قحط نے نابود کردیا، سات ہری بالوں اور سات سوکھی بالوں میں بھی یہی بات واضح کی گئئی ہے۔ پھر فرمایا : اس آنے والی مصیبت سے ملک کو کیونکر بچایا جاسکتا ہے؟ اس کی تدبیر یہ ہے کہ بڑھتی کے ساتھ برستوں میں قحط کے لے اناج ذخیرہ کیا جائے اور اسے اس طرح محفوظ رکھا جائے کہ آنے والے سات برسوں میں ملک کے لیے کفایت کرے۔ یہ قرآن کے ایجاز بلاغت میں سے ہے کہ تعبیر اور تدبیر کو الگ الگ بیان نہیں کیا، ایک ساتھ ہی بیان کردیا، تاکہ تکرار بیان کی حاجت نہ رہے، جب سردار ساقی نے حضرت یوسف کا جواب بادشاہ کو سنایا تو تعبیر اس درجہ واضح اور چسپاں تھی کہ اس نے سنتے ہی اس کی تصدیق کی اور ان کی ملاقات کا مشتاق ہوگیا۔ چنانچہ حکم دیا، فورا انہیں قید خانے سے نکالا جائے اور دربار میں لایا جائے۔