إِنِّي تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ رَبِّي وَرَبِّكُم ۚ مَّا مِن دَابَّةٍ إِلَّا هُوَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا ۚ إِنَّ رَبِّي عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
بے شک میں نے اللہ پر بھروسا کیا، جو میرا رب ہے اور تمھارا رب ہے۔ کوئی چلنے والا (جاندار) نہیں مگر وہ اس کی پیشانی کے بالوں کو پکڑے ہوئے ہے۔ بے شک میرا رب سیدھے راستے پر ہے۔
(١) آیت کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ کوئی چلنے والا وجود نہیں ہے مگر یہ کہ اللہ نے اسے کی پیشانی کے بالوں سے پکڑ رکھا ہے۔ یہ عربی کا محاورہ ہے اور اسی معنی میں بولا جاتا ہے جو متن میں اختیار کیے گئے ہیں۔ آیت (٥٦) میں ربی وربکم کا زور جس بات پار ہے اسے سمجھ لینا چاہیے ان تمام مشرک قوموں کو اس بات سے انکار نہ تھا کہ ایک خالق و پروردگار ہستی موجود ہے اور اصلی طاقت اسی کی طاقت ہے۔ یعنی وہ توحید ربوبیت سے بے خبر نہ تھے لیکن ساری گمراہی یہ تھی کہ توحید الوہیت میں کھوئے گئے تھے، یعنی سمجھتے تھے اس پر پروردگار ہستی کے ماتحت دوسری ہستیاں بھی ہیں جنہیں تصرف کا اختیار مل گیا ہے اور اس لیے ہمیں ان کی پوجا کرنی چاہیے۔ پس (ربی و ربکم) کا مطلب یہ ہوا کہ میرا بھروسہ تو اس پر ہے جسے میں بھی رب یقین کرتا اور تم بھی رب مانتے ہو۔