وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ بِكُلِّ آيَةٍ مَّا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ ۚ وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ ۚ وَمَا بَعْضُهُم بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ ۚ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ إِنَّكَ إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ
اور یقیناً اگر تو ان لوگوں کے پاس جنھیں کتاب دی گئی ہے، ہر نشانی بھی لے آئے وہ تیرے قبلے کی پیروی نہیں کریں گے اور نہ تو کسی صورت ان کے قبلے کی پیروی کرنے والا ہے اور نہ ان کا بعض کسی صورت بعض کے قبلے کی پیروی کرنے والا ہے اور یقیناً اگر تو نے ان کی خواہشوں کی پیروی کی، اس علم کے بعد جو تیرے پاس آیا ہے، تو بے شک تو اس وقت ضرور ظالموں سے ہوگا۔
یہود اور نصاری کا تحویل قبلہ پر اعتراض کرنا محض گروہ پرستی کے تعصب کا نتیجہ ہے۔ اگر ان میں حق پرستی ہوتی تو وہ آپس میں کیوں ایک دوسرے سے مختلف ہوتے اور کیوں ایسا ہوتا کہ یہودی عیسائیوں کا قبلہ نہیں مانتے اور عیسائیوں کو یہودیوں کے قبلہ سے انکار ہوتا؟ پس جب صورت حال ایسی ہے تو متبع حق کو چاہیے ایسے لوگوں کے اتفاق و یک جہتی سے قطع نظر کرلے۔ کیونکہ جن لوگوں نے اتباع حق سے یک قلم کنارہ کشی کرلی ہے ان کے ساتھ متبع حق کا کبھی اتفاق نہیں ہوسکتا