قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِن كُنتُمْ فِي شَكٍّ مِّن دِينِي فَلَا أَعْبُدُ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِنْ أَعْبُدُ اللَّهَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ ۖ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
کہہ دے اے لوگو! اگر تم میرے دین کے بارے میں کسی شک میں ہو تو میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو اور لیکن میں اس اللہ کی عبادت کرتا ہوں جو تمھیں قبض کرتا ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ایمان والوں سے ہوجاؤں۔
آیت (١٠٤) کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے میری دعوت دین کی حقیقت ٹھیک ٹھیک نہیں سمجھی ہے اور اس وہم میں مبتلا ہو کہ شاید تمہارے مطلب کی باتیں بھی تھوڑی بہت مان لوں تو یہ وہم اپنے دماغ سے نکال دو۔ میرا اعلان صاف صاف یہ ہے کہ میں تمہارے گھڑے ہوئے معبودوں کو نہیں مانتا، صرف پروردگار عالم کی عبادت کرتا اور اسی کی طرف سے دعوت دینے پر مامور ہوں، اب اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد جو کچھ تمہارے جی میں آئے کرو، میری راہ میرے لیے ہے تمہاری تمہارے لیے اور فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ قرآن حکیم میں تم جابجا اس طرح کا اعلان پاؤ گے جیسا کہ آیت (١٠٨) میں ہے، اس نے پچھلے نبیوں کے جو مواعظ نقل کیے ہیں ان میں بھی ہر جگہ ایسی ہی بات پائی جاتی ہے۔ یعنی مذہبی صداقت کی دعوت کا معاملہ سر تا سر سمجھنے بوجھنے اور سمجھ بوجھ کر اختیار کرلینے کا معاملہ ہے، اس میں نہ تو کسی طرح کی زبردستی ہے نہ کسی طرح کا لڑائی جھگڑا، تمہاری بھلائی کے لیے ایک بات کہی گئی ہے، اگر سمجھ میں آجائے تو مان لو، نہ آئے تو نہ مانو، تمہاری راہ تمہارے لیے، ہماری راہ ہمارے لیے، اگر مان لو گے تو اپنا ہی بھلا کرو گے نہ مانو گے تو اپنا ہی نقصان کرو گے۔ ہر شخص اپنے نفس کا مختار ہے، چاہے بھلائی کی راہ چلے اور بھلائی کمائے، چاہے برائی کی چال چلے گا تو کسی دوسری کا نقصان نہیں کردے گا کہ وہ اس سے بگڑنے لگے، اپنی اپنی راہ ہے اور اپنی اپنی کمائی : (من عمل صالحا فلنفسہ ومن اساء فعلیھا وما ربک بظلام للعبید) تذکیر و توکیل : ساتھ ہی واضح کردیا کہ داعی حق کی حیثیت کیا ہے : وما انا علیکم بوکیل۔ میں داعی اور مذکر ہوں، کچھ تم پر وکیل نہیں بنایا گیا ہوں، یعنی میرا کام یہ ہے کہ نصیحت کی بات سمجھا دوں، یہ نہیں ہے کہ نگہبان بن کر تم پس مسلط ہوجاؤں اور سمجھوں مجھے تمہاری ہدایت کی ٹھیکیداری مل گئی ہے۔ دوسری جگہ پیغمبر اسلام کو مخاطب کرتے ہوئے یہی مطلب یوں ادا کیا ہے کہ (وما انت علیھم بجبار) تو ان لوگوں پر ایک حاکم جابر کی طرح مسلط نہیں ہے کہ جبرا و قہرا بات منوا دے۔ نیز فرمایا (لست علیھم بمصیطر) تجھے ان لوگوں پر داروغہ بنا کر نہیں بٹھا دیا ہے کہ مانیں یا نہ مانیں لیکن تو انہیں راہ حق پر چلانے کا ذمہ دار ہو۔ نیز جابجا مختلف پیرایوں میں یہ حقیقت واضح کردی ہے کہ پیغمبر کا مقام اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ سچائی کی پکار بلند کرنے والا ہے، پیام حق پہنچانے دینے والا ہے، نصیحت کی بات سجھا دینے والا ہے، ایمان و عمل کے نتائج کی خوشخبری دیتا اور انکار و بد عملی کے نتائج سے خبردار کردیتا ہے، اس سے زیادہ اس کے سر کوئی ذمہ داری نہیں۔ غور کرو۔ اس سے زیادہ صاف، بے لاگ اور امن و سلماتی کی کوئی راہ ہوسکتی ہے؟ اور اگر دنیا نے دعوت حق کی یہ روح سمجھ لی ہوتی تو کیا ممکن تھا کہ کوئی انسان دوسرے انسان سے محض اعتقاد و عمل کی بنا پر لڑتا؟ لیکن مصیبت یہ ہے کہ انسان کے ظلم و سرکشی نے کبھی اس حقیقت کا اعتراف نہیں کیا اور یہی بات ساری نزاعوں کی بنیاد بن گئی۔ قرآن نے پھچلی دعوتوں کی جس قدر سرگزشتیں بیان کی ہیں انہیں جابجا پڑھو۔ ہر جگہ دیکھو گے کہ بنائے نزاع یہی تھی، خدا کے رسولوں کا ہمیشہ اعلان یہی ہوا کہ ہم نصیحت کرنے والے ہیں۔ ماننا نہ ماننا تمہارا کام ہے، اگر نہیں مانتے تو تم اپنی راہ چلو، ہمیں اپنی راہ چلنے دو اور دیکھو نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ لیکن ان کے منکر کہتے تھے کہ نہیں نہ تو ہم تمہاری بات مانیں گے نہ تمہیں تمہاری راہ چلنے دیں گے۔ سورۃ اعراف کی آیت (٨٨) میں حضرت شعیب کی سرگزشت گزر چکی ہے۔ جب ان کی قوم کے سرکشوں نے کہا اگر تم اور تمہارے ساتھی ہماری ملت میں پھر لوٹ نہ آئے تو ہم ضرور تمہیں اپنی بستی سے جلا وطن کردیں گے تو انہوں نے جواب میں کہا اولو کنا کارھین؟ اگر تمہارے مذہب پر ہمارا دل مطمئن نہ ہو تو کیا جبرا اسے مان لیں؟ اسلام اور اس کے منکروں میں جو نزاع شروع ہوئی وہ بھی تمام تر یہی تھی۔ قرآن کہتا تھا، میری راہ تبلیغ و تذکیر کی ہے، مخالف کہتے تھے، ہماری راہ جبر و تشدد کی ہے، قرآن کہتا تھا اگر میری بات سمجھ میں آئے تو مان لو، نہ سمجھ میں آئے تو ماننے والوں کو ان کی راہ چلنے دو، وہ کہتے تھے ہماری بات تمہاری سمجھ میں آئے یا نہ آئے تمہیں ماننی ہی چاہیے نہیں مانو گے تو جبرا منوائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن نے اس آیت میں اور اس کی ہم معنی آیات میں جو بات کہہ دی ہے اگر دنیا اسے سمجھ لیتی تو نوع انسانی کی وہ تمام خونریزیاں جو فکر و عمل کے اختلاف سے پیدا ہوئیں یک قلم ختم ہوجاتیں اور آج کل بھی جس قدر جھگڑے ہورہے ہیں وہ سب ختم ہوجائیں۔ غور کرو سارے جھگڑوں کی اصلی بنا کیا ہے؟ یہی ہے کہ لوگ تذکیر اور توکیل میں فرق نہیں کرتے اور قرآن کہتا ہے دونوں میں فرق کرو۔ تذکیر کی راہ یہ ہوئی کہ جو بات ٹھیک سمجھتے ہو اس کی دوسروں کو بھی ترغیب دو مگر صرف ترغیب دو، اس سے آگے نہ بڑھو۔ یعنی یہ بات نہ بھول جاؤ کہ پسند کرنے نہ کرنے کا حق دوسروں کو ہے، تم اس کے لیے ذمہ دار نہیں ہو۔ تو کیل یہ ہوئی کہ ڈنڈا لے کر کھڑے ہوجاؤ اور جو کوئی تم سے متفق نہ ہو اس کے پیچھے پڑجاؤ۔ گویا خدا نے تمہیں لوگوں کی ہدایت و گمراہی کا ٹھیکیدار بنا دیا ہے، جب قرآن صاف صاف کہتا ہے کہ خدا کے رسولوں کا منصب بھی تذکیر و تبلیغ کے اندر محدود تھا حالانکہ وہ اللہ کی طرف سے مامور تھے تو پھر ظاہر ہے کسی دوسرے انسان کے لیے وہ کب گوارا کرسکتا ہے کہ وکیل مصطیر اور جبار بن جائے؟ دراصل اعمال انسانی کے تمام گوشوں میں اصلی سوال حدود ہی کا ہے اور ہر جگہ انسان نے اسی میں ٹھوکر کھائی ہے، یعنی ہر بات کی جو حد ہے اس کے اندر نہیں رہنا چاہتا، دو حق ہیں اور دونوں کو اپنی اپنی حدوں کے اندر رہنا چاہی، ایک حق تذکیر و تبلیغ کا ہے، ایک پسند و قبولیت کا، ہر انسان کو اس کا حق ہے کہ جس بات کو درست سمجھتا ہے اسے دوسروں کو بھی سمجھائے لیکن اس کا حق نہیں ہے کہ دوسروں کے حق سے انکار کردے۔ یعنی یہ بات بھلا دے کہ جس طرح اسے ایک بات کے ماننے نہ ماننے کا حق ہے، ویاس ہی دوسرے کو بھی ماننے نہ ماننے کا حق ہے، اور ایک فرد دوسرے کے لیے ذمہ دار نہیں۔ ہم نے یہاں جس بات کو حق سے تعبیر کیا ہے قرآن اسے ہر انسان کا فرض قرار دیتا ہے۔ یعنی وہ کہتا ہے جس بات کو تم سچ سمجھتے ہو تمہارا فرض ہے کہ اسے دوسروں تک بھی پہنچاؤ، اگر اس میں کوتاہی کرو گے تو خدا کے آگے جوابدہ ہوگے، لیکن ساتھ ہی یاد رکھو کہ فرض تذکیر و تبلیغ کا ہے، توکیل و اجبار کا نہیں ہے، اور جوابدہی اس میں ہے کہ تم نے تبلیغ کی یا نہیں، اس میں نہیں ہے کہ دوسروں نے مانا یا نہیں مانا۔ سورۃ اعراف کی آیت (١٦٤) میں پڑھ چکے ہو کہ جو لوگ اصحاب سبت کو نصیحت کرتے تھے انہوں نے کہا تھا معذرۃ الی ربکم ولعلھم یتقون۔ ہم جانتے ہیں کہ ان لوگوں کی سرکشی حد سے گزر چکی ہے لیکن یہ جاننے پر بھی نصیحت کیے جاتے ہیں، تاکہ خدا کے سامنے کہہ سکیں ہم نے اپنا فرض ادا کردیا تھا اور اس خیال سے بھی کہ کون جانتا ہے؟ شاید باز آجائیں۔ غور کرو قرآن نے کس درجہ صحت و عدالت کے ساتھ معاملہ کے دونوں پہلوؤں کی حفاظت کی ہے اور پھر ان کی حد بندیوں کا خط کھینچ دیا ہے؟ اس نے ایک طرف تذکیر و دعوت پر زور دیا تاکہ حق کی طلب و قیام کی روح افسردہ نہ ہو، دوسری طرف انسان کی شخصی آزادی بھی محفوظ کردی کہ جبر و تشدد بے جا مداخلت نہ کرسکے، حد بندی کا یہی خط ہے جو یہاں صحت و اعتدال کی حالت قائم رکھتا ہے۔ اسے اپنی جگہ سے ادھر ادھر کر دو دونوں میں سے کوئی بات ضرور غلط ہوجائے گی، اگر دعوت و تذکیر کا قدم آگے بڑھے گا، اعتقاد و فکر کی شخصی آزادی باقی نہیں رہے گی۔ اگر شخصی اذادی کے مطالبہ میں بڑھ جاؤ گے، حق و عدالت کے طلب و قیام کا نظم مختل ہوجائے گا۔ قرآن کی بہت سی باتوں کی طرح اس بات کے سمجھنے میں بھی دنیا نے بہت دیر لگائی اور تاریخ کو بارہ صدیوں تک سا بات کا انتظار کرنا پڑا کہ ایک انسان دوسرے انسان کو محض اختلاف عقائد پر ذبح نہ کرے اور اتنی بات سمجھ لے کہ تذکیر اور توکیل میں فرق ہے۔ اب ڈیڑھ سو برس سے یہ بات دنیا کے عقلی مسلمات میں سے مجھی جاتی ہے لیکن اسے معلوم نہیں کہ اس کے اعلان کی تاریخ امریکہ اور فرانس کے اعلان حقوق انسانی سے شروع نہیں ہوئی ہے۔ اس سے بارہ سو برس پہلے شروع ہوچکے تھی۔ مسلمانوں نے بھی قرآن کی یہ تعلیم پس پشت ڈال دی، اگر انہوں نے یہ بات نہ بھلائی ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ مختلف مذہبی فرقہ بندیاں پیدا ہوتیں اور ہر فرقہ دوسرے فرقہ سے محض اختلاف عقائد کی بنا پر دست و گریباں ہوجاتا۔ اس سورت کے بعض مقامات کی ضرور تشریحات رہ گئی ہیں، وہ یہاں درج کردی جاتی ہیں۔