وَلَقَدْ بَوَّأْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ مُبَوَّأَ صِدْقٍ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ فَمَا اخْتَلَفُوا حَتَّىٰ جَاءَهُمُ الْعِلْمُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ يَقْضِي بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے بنی اسرائیل کو ٹھکانا دیا، باعزت ٹھکانا، اور انھیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا، پھر انھوں نے آپس میں اختلاف نہیں کیا، یہاں تک کہ ان کے پاس علم آگیا، بے شک تیرا رب ان کے درمیان قیامت کے دن اس کے بارے میں فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کرتے تھے۔
آیت (٩٣) کا مضمون بظاہر عجیب معلوم ہوتا ہے، یعنی مشیت الہی کا یہ فیصلہ کہ فرعون کے جسم کو غرق ہونے سے نجات دی جائے گی تاکہ آنے والی قوموں کے لیے قدرت حق کی نشانی ہو۔ اور اسی لیے قدیم مفسرین کو حل مطلب میں مشکلات پیش آئیں، لیکن اگر وقت نظر سے کام لیا جائے، تو مطلب بالکل واضح ہے۔ قدیم مصریوں میں ھنوط کا طریقہ رائج تھا، یعنی بادشاہوں اور امیروں کی نعشیں ایک خاص طرح کا مسالا لگا کر ایک عرصہ تک کے لیے محفوظ کردیتے تھے۔ چنانچہ اٹھارویں صدی کے اوائل سے لے کر اس وقت تک بے شمار نعشیں مصر میں نکل چکی ہیں اور دنیا کا کوئی عجائب خانہ نہیں جس کے حصے میں دو چار نعشیں نہ آئی ہوں۔ اس طرح کی نعشوں کے لیے ممی کا لفظ یونانیوں نے استعمال کیا تھا جو غالبا خود مصریوں ہی کی اصطلاح تھی۔ آیت کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ فرمایا۔ تو اب موت سے تو نہیں بچ سکتا، لیکن تیرا جسم سمندر کی موجوں سے بچا لیا جائے گا کہ وہ حسب معمول ممی کر کے رکھا جائے اور آنے والی نسلوں کے لیے عبرت و تذکیر کا موجب ہو۔ اگر مصریات (اجپٹالوجیا) کے بعض علماء کی یہ تحقیق درست ہے کہ یہ فرعون رخمسیس ثانی تھا تو اس کا بدن آج تک زائل نہیں ہوا ہے، کیونہ اس کی ممی نکل آئی ہے اور قاہرہ کے دار الآثار میں صحیح و سالم موجود ہے۔ اس سلسلہ میں متعدد امور بحث طلب ہیں جن کے لیے البیان کا انتظار کرنا چاہیے۔