وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِينَ أَشْرَكُوا مَكَانَكُمْ أَنتُمْ وَشُرَكَاؤُكُمْ ۚ فَزَيَّلْنَا بَيْنَهُمْ ۖ وَقَالَ شُرَكَاؤُهُم مَّا كُنتُمْ إِيَّانَا تَعْبُدُونَ
اور جس دن ہم ان سب کو اکٹھا کریں گے، پھر ہم ان لوگوں سے جنہوں نے شریک بنائے تھے، کہیں گے اپنی جگہ ٹھہرے رہو، تم اور تمھارے شریک بھی، پھر ہم ان کے درمیان علیحدگی کردیں گے اور ان کے شریک کہیں گے تم ہماری تو عبادت نہیں کیا کرتے تھے۔
آیت (٢٨) میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ تم جن پیشواؤں کو اپنی حاجت روائیوں کے لیے پکارتے ہو ان تک نہ تو تمہاری پکار پہنچتی ہے، نہ تمہاری پرستاریوں کی انہیں کچھ خبر ہے، وہ تمہاری حاجت روائی کیا کریں گے؟ قیامت کے دن خدا مشرکوں کو اور ان کے بنائے ہوئے شریکوں کو ایک صف میں کھڑا کرے گا۔ کیونکہ معبودوں کو اپنے پرستاروں کے حلقے ہی میں ہونا چاہیے۔ لیکن وہ مشرکوں کا ساتھی ہونا پسند نہیں کریں گے، وہ کہیں گے ہمیں ان سے کوئی واسطہ نہیں، یہ گو ہمارا نام لیتے ہوں لیکن فی الحقیقت ہمیں نہیں پوجتے تھے، اپنی ہوائے نفس کے پجاری تھے، ہمیں تو ان کی پرستش کی خبر بھی نہیں۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسی مائدہ کے آخر میں حضرت مسیح کی نسبت فرمائی ہے کہ قیامت کے دن عرض کریں گے میں عیسائیوں کے شرک سے بری ہوں۔ ( ماقلت لھم الا امرتنی بہ) مزید تشریح کے لیے آخری نوٹ میں واردات آخرت کا مبحث دیکھو۔