إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا ۖ وَعْدَ اللَّهِ حَقًّا ۚ إِنَّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ بِالْقِسْطِ ۚ وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ
اسی کی طرف تم سب کا لوٹنا ہے، اللہ کا وعدہ ہے سچا۔ بے شک وہی پیدائش شروع کرتا ہے، پھر اسے دوبارہ پیدا کرے گا، تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، انھیں انصاف کے ساتھ جزا دے اور جن لوگوں نے کفر کیا، ان کے لیے نہایت گرم پانی سے پینا ہے اور دردناک عذاب ہے، اس کے بدلے جو وہ کفر کیا کرتے تھے۔
آیت (٤) میں سلسلہ بیان آخرت کی زندگی کی طرف متوجہ ہوگیا ہے جس سے مشرکین عرب کو انکار تھا، یہاں تین باتوں کی طرف اشارہ کیا : (ا) وہ ہستی پیدا کرتا ہے اور پھر دہراتا ہے، پس اگر پہلی پیدائش پر یقین رکھتے ہو تو دوسری پیدائش پر تمہیں کیوں تعجب ہوتا ہے؟ یہ پہلی نشاۃ سے دوسری نشاۃ پر استدلال ہے۔ زیادہ تفصیل سورۃ حج کی آیت (٥) اور قیامہ کی آخری آیات میں ملے گی۔ (ب) یہ دوسری زندگی کیوں ضروری ہوئی؟ اس لیے کہ جزائے عمل کا قانون چاہتا تھا کہ جس طرح ایک زندگی آزمائش عمل کے لیے ہے اسی طرح ایک زندگی جزائے عمل کے لیے بھی ہو۔ (ج) تمام نظام خلقت اس کی شہادت دے رہا ہے کہ یہاں کوئی بات بغیر حکمت و مصلحت کے نہیں ہے۔ سورج کو دیکھو جس کی درخشندگی سے تمام ستارے روشنی حاصل کرتے ہیں۔ چاند کو دیکھو جس کی گردش کی ٢٨ منزلیں مقرر کردی ہیں اور اسی سے تم مہینے کا حساب کرتے ہو اور برسوں کی گنتی معلوم کرتے ہو۔ اگر یہ سب کچھ بغیر مصلحت کے نہیں ہے تو کیا ممکن ہے کہ انسان کا وجود بغیر کسی غرض و مصلحت کے ہو اور صرف اس لیے ہو کہ کھائے پیے اور مر کر ہمیشہ کے لیے فنا ہوجائے؟ (اس استدلال کی وضاحت کے لیے دیکھو تفسیر فاتحہ) غور کرو، اس قسم کے تمام مواعظ کا خاتمہ ہمیشہ اسی قسم کے جملوں پر ہوتا ہے کہ لقوم یعلمون۔ لقوم یعقلون۔ کیونکہ ان باتوں کو وہی سمجھ سکتا ہے جو علم و بصیرت سے محروم نہ ہو۔ (٥) منازل قمر کی تقدیر سے مقصود کیا ہے؟ اس کی تشریح سورت کے آخری نوٹ میں ملے گی۔ (٦) سبحان اللہ ! آیت (٧) کے چند گنے ہوئے لفظوں میں حقیقت حال کی کیسی کامل تصویر کھینچ دی ہے جس سے کوئی گوشہ بھی باہر نہیں رہا، ساتھ ہی وجود آخرت کے تمام دلائل بھی نمایاں ہوگئے۔ منکرین آخرت کی ذہنیت کی چار حالتیں ہیں : (ا) ان کے اندر خدا سے ملنے کی توقع نہیں۔ (ب) صرف دنیوی زندگی ہی میں خوشنود ہورہے ہیں۔ (ج) اس حالت کے خلاف ان کے اندر کوئی خلش پیدا نہیں ہوتی، اس پر مطمئن ہوگئے ہیں۔ (د) ان کا ذہن و ادراک اس درجہ معطل ہوگیا ہے کہ قدرت کی تمام نشانیاں جو چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں انہیں بیدار نہیں کرسکیں وہ یک قلم غافل ہوگئے ہیں۔ ان میں سے ہر بات نہ صرف بیان حال ہے بلکہ بجائے خود ایک دلیل بھی ہے اور یہی قرآن کی معجزانہ بلاغت ہے۔ تشریح البیان میں ملے گی۔ یاد رہے کہ قرآن نے ہر جگہ آخرت کے معاملہ کو لقائے الہی سے تعبیر کیا ہے، اور اس تعبیر نے واضح کردیا ہے کہ حیات آخرت کی اصل حقیقت قرآن کے نزدیک کیا ہے۔ مختصر تشریح آخری نوٹ میں ملے گی۔