سورة التوبہ - آیت 126

أَوَلَا يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوبُونَ وَلَا هُمْ يَذَّكَّرُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور کیا وہ نہیں دیکھتے کہ بے شک وہ ہر سال ایک یا دو مرتبہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں، پھر بھی وہ نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ ہی وہ نصیحت پکڑتے ہیں۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

قانون انذار و تنبیہ : آیت (١٢٦) میں اگرچہ منافقوں کا ذکر ہے لیکن قرآن کے تمام بیانات کی طرح یہاں بھی مقصود یہ ہے کہ غفلت انسانی کی ایک عام تصویر سامنے آجائے۔ افراد کی زندگی ہو یا جماعت کی لیکن ہر ہلاکت و بربادی کے بعد تم سراغ لگاؤ گے تو پاؤ گے کہ ان کی ہلاکت اچانک ان پر نہیں آگری تھی، وہ مدتوں تک ان پر منڈلاتی رہی، لیکن اتری نہیں، وہ اپنی آمد کی علامتیں بھیجتی رہی، ان کی زندگی کا کوئی برس کوئی مہینہ بلکہ کوئی دن ان سے خالی نہیں گیا۔ لیکن جب یہ ساری تنبیہیں بیکار ہوئیں اور وہ غفلت و گمراہی سے باز نہ آئے، تو پھر ان پر اتر آئی، کیونکہ یہ ان کی اجل تھی اور جب اجل آجائے تو وہ ٹل نہیں سکتی۔ خدا کے روحانی قوانین بھی اس کے جسمانی قوانین کی طرح ہیں، تم بدپرہیزی کرتے ہو تو فورا نہیں مرجاتے، البتہ موت کے پیام آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ خدا کے روحانی قوانین بھی اس کے جسمانی قوانین کی طرح ہیں، تم بدپرہیزی کرتے ہو تو فورا نہیں مرجاتے، البتہ موت کے پیام آنا شروع ہوجاتے ہیں، یہ پیام کیا ہیں؟ بیماریاں ہیں جو موت کی طرف سے آنے لگتی ہیں تاکہ تمہیں بروقت ہوشیار کردیں۔ اگر تم ہوشیار ہوگئے تو وہ رک جائے گی، نہ ہوئے تو پھر تمہارے سرہانے آ کھڑی ہوگی۔ ٹھیک ایسا ہی معاملہ جماعتوں اور قوموں کے ساتھ بھی پیش آتا ہے اور ایسا ہی معاملہ افراد کی معنوی سعادت و شقاوت کا بھی سمجھو۔ جو نصیحت پکڑتے اور باز آجاتے ہیں وہ سنت الہی کے مطابق ہلاکت سے بچ جاتے ہیں۔ جو مصر رہتے ہیں ہلاک ہوجاتے ہیں، یہی حقیقت ہے جسے قرآن نے جابجا امہال، تربص اور استمتاع سے بھی تعبیر کیا ہے۔ (تشریح کے لیے دیکھو تفسیر فاتحہ) برات ایک وداعی موعظت تھی : امام بخاری نے براء سے روایت کی ہے کہ آخری سورت جو نازل ہوئی برات ہے اور حاکم وغیرہ نے ابی بن کعب اور ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ سب سے آخری آیات جو نازل ہوئیں برات کی آخری دو آیتیں ہیں، لیکن تمام روایتوں کو جمع کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے برات سب سے آخری نہیں ہوسکتی۔ کم از کم (واتقوا یوما ترجعون فیہ الی اللہ) اور سورۃ نصر سا کے بعد ضرور نازل ہوئی ہے۔ بہرحال آخری ہو یا نہ ہو لیکن باعتبار نزول کے یہ آخری کلام میں سے ضرور ہے اور اسی لیے بحیثیت مجموعی پوری سورت میں اور آخری دو آیتوں میں خصوصیت کے ساتھ اس طرح کا طرز خطاب پایا جاتا ہے جیسے امت کو آخری احکام دیے جارہے ہوں یا آخری موعظت کا پیام ہو۔ چنانچہ آخری دو آیتوں میں عرب کی اس نسل سے خطاب ہے جو اس وقت مخاطب تھی، فرمایا اللہ کا رسول تم میں آگیا، اور اس نے اپنا فرض رسالت ادا کردیا، وہ کسی دوسری جگہ سے تم میں نہیں آنکلا تھا۔ سنت الہی کے مطابق خود تم ہی میں پیدا ہوا اور چونکہ وہ تم ہی میں سے ہے اس لیے اول سے لے کر آخر تک اس کی ساری باتیں تمہاری نگاہوں کے سامنے رہی ہیں۔ اس کا لڑکپن بھی تم میں گزرا، اس کی جوانی کے دن بھی تم میں بسر ہوئے، پھر اس نے نبوت کا اعلان کیا تو تم سے کہیں چھپ کر زندگی بسر نہیں کی، اس کی ساری باتیں تم اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے، پھر جو کچھ گزرنا تھا گزرا، اور تم نے مظلومی و بیکسی کے اعلان بھی سن لیے، فتح و کامرانی میں ان تصدیق بھی کرلی، تم میں کوئی نہیں جو اس کی بے داغ زندگی کا شاہد نہ ہو اور کوئی نہیں جس نے اس کی ایک ایک بات کی سچائی آزما نہ لی ہو۔ پھر ان کے ایک ایسے وصف پر زور دیا جو منصب رسالت کے لیے اور ہر اس انسان کے لیے جو قوم کی رہنمائی و قیادت کا مقام رکھتا ہو سب سے زیادہ ضروری وصف ہے یعنی ابنائے جنس کے لیے شفقت و رحمت، فرمایا اس سے زیادہ کوئی بات تمہارے لیے یقینی نہیں ہوسکتی کہ وہ سرتا پا شفقت و رحمت ہے۔ وہ تمہارا دکھ برداشت نہیں کرسکتا، تمہاری ہر تکلیف خواہ جسم کے لیے ہو خواہ روح کے لیے، اس کے دل کا درد و غم بن جاتی ہے، وہ تمہاری بھلائی کی خواہش سے لبریز ہے، وہ اس کے لیے ایسا مضطرب قلب رکھتا ہے کہ اگر اس کی بن پڑتی تو ہدایت و سعادت کی ساری پاکیاں پہلے ہی دن گھونٹ بنا کر پلا دیتا، پھر اس کی یہ شفقت و محبت صرف تمہاری ہی لیے نہیں ہے، وہ تو تمام مومنوں کے لیے خواہ عرب کے ہوں خواہ عجم کے روف رحیم ہے۔ روف رافت سے ہے اور اس کا اطلاق ایسی رحمت ہر پوتا ہے جو کسی کی کمزوری و مصیبت پر جوش میں آئے، پس رافت رحمت کی ایک خاص صورت ہے اور رحمت عام ہے، دونوں کے جمع کردینے سے رحمت کا مفہوم زیادہ قوت و تاثر کے ساتھ واضح ہوگیا۔ خدا نے یہ دونوں وصف جابجا اپنے لیے فرمائے ہیں اور یہاں اپنے رسول کے لیے بھی فرمائے۔ اس کے بعد فرمایا کہ اگر یہ مجمع مخاطبین یہ سب کچھ دیکھ لینے اور تجربہ کرلینے کے بعد بھی ادائے فرض سے اعراض کرے تو اے پیغمبر ! تم آخری اعلان کردو کہ میرے لیے اللہ بس کرتا تھا اور اب بھی اللہ بس کرتا ہے، وہ اپنے کلمہ حق کا محافظ ہے اور اس کی مشیت نے جو کچھ فیصلہ کردیا ہے بہرحال ہو کر رہنے والا ہے۔ اس کا قیام و عروج کسی خاص ملک اور قوم کی پشت پناہی پر موقوف نہیں، میرا بھروسہ اسی پر تھا اور سی پر ہے، میں اپنے فرض سے سکبدوش ہوگیا۔ یہ پیام موعظت یہاں کیوں ضروری ہوا؟ اس کے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ دو باتیں سامنے رکھ لی جائیں : سورت کے نازل کا وقت سورت کے مطالب، یہ سورت اس وقت نازل ہوئی جب تمام عرب کیں کلمہ حق سربلند ہوچکا تھا اور گو قرآن نے دعوت حق کی عالمگیر فیروز مندیوں کی خبر دے دی تھی تاہم ان لوگوں کے لیے جو کل تک غربت و بے کسی کی انتہائی مصیبتوں میں رہ چکے تھے تمام عرب کا مسلمان ہوجانا بڑی سے بڑی کامرانی تھی اور اس لیے ناگزیر تھا کہ ایک طرح کی فارغ البالی اور بے پروائی طبیعتوں میں پیدا ہوجائے، غزوہ تبوک کی تیاریوں میں جو بعضوں سے تساہل ہوا تو اس کی تہ میں بھی اس حالت کی جھلک صاف دکھائی دے رہی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اس سورت میں اس تفصیل اور شدت کے ساتھ استعداد کا اور عزم و ہمت کی تلقین کی گئی کہ اس کی نظیر کسی دوسری سورت میں نہیں ملتی۔ پس یہاں اس آخری موعظت و اعلان کا مطلب یہ ہے کہ اہل عرب پر دو باتیں واضح کردی جائیں۔ ایک یہ کہ جو کچھ ہوچکا ہے یہ معاملہ کی تکمیل نہیں ہے بلکہ محض ابتدا ہے اور اس لیے ادائے فرض کا مطالبہ بدستور باقی ہے۔ یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ کام سے فارغ البال ہوگئے، دوسری یہ کہ کلمہ حق اپنے عروج کے لیے تمہارا محتاج نہیں۔ اگر آئندہ تم نے کوتاہی کی تو خود نقصان اٹھاؤ گے دعوت حق کا کچھ نہیں بگڑے گا، اس کے لیے صرف اللہ کی جہانداری عالم کے عرش عظیم کا مالک ہے نصرت و حمایت کفایت کرتی ہے۔ مندرجہ بالا سطور سے وہ تمام الجھاؤ دور ہوگئے جو ان دو آیتوں کے بارے میں پیدا ہوگئے تھے، چونکہ ان آیتوں میں اہل عرب سے خطاب ہے اور اعراض کی صورت میں توکل علی اللہ کی تلقین کی گئی ہے اور یہ اسلوب بیان زیادہ تر مکی سورتوں کا رہا ہے اس لیے مفسرین نے خیال کیا یہ مدنی آیتیں نہیں ہوسکتیں اور سورۃ برات میں ان کا ہونا تعجب انگیز ہے۔ پھر اس استعجاب کو دور کرنے کے لیے طرح طرح کی توجیہیں کی گئیں لیکن مندرجہ بالا تفسیر کے بعد وہ سب غیر ضروری اور بے محل ہوگئیں۔ سورت کے بعض مہمات کی تشریح ابھی باقی ہے : اہل کتاب سے قتال کا حکم کیوں دیا گیا : آیت (٢٩) میں عرب کے ان یہودیوں اور عیسائیوں سے بھی تمام معاہدات فسخ کردینے کا حکم دیا ہے جنہوں نے یکے بعد دیگرے معاہدوں کی خلاف ورزیاں کی تھیں اور مسلمانوں کے امن و عافیت کے خلاف ایک بہت بڑا خطرہ بن تئے تھے، اور حکم دیا ہے کہ مشرکین عرب کی طرح ان کے خلاف بھی اب اعلان جنگ ہے۔ اسلام کا جب ظہور ہوا تو حجاز میں یہودیوں کی متعدد جماعتیں آباد تھیں لیکن عیسائیوں کی کوئی قریبی آبادی نہ تھی، وہ یا تو یمن میں تھے یا عرب اور شام کے سرحدی علاقے میں، یہودیوں کا جو طرز عمل رہا اس کی طرف اشارات گزر چکے ہیں، عیسائیوں کی حالت یہودیوں سے مختلف رہی، ان کی طبیعت میں وہ جمود اور سختی نہ تھی جو یہودیوں میں طبیعت ثانیہ ہوچکی تھی اس لیے جب انہوں نے اس دعوت کا حال سنا تو مخالفت کا جوش پیدا نہیں ہوا بلکہ اس کی طرف مائل ہونے لگے۔ چنانچہ یمن کے عیسائیوں نے ابتدا سے موافقانہ روش اختیار کی تھی اور خود اپنی خوشی سے جزیہ دینا قبول کرلیا تھا۔ پھر خودبخود اسلام نے اپنی راہ وہاں نکال لی۔ اننہی کے وفد سے وہ مخاطبات ہوئے تھے جو سورۃ آل عمران میں گزر چکے ہیں۔ عرب سے باہر کے جن عیسائیوں تک اسلام کی دعوت پہلے پہل پہنچی ان کا بھی یہی حال رہا، چنانچہ تاریخ اسلام میں سب سے پہلے جو بادشاہ مسلمان ہوا وہ حبش کا عیسائی فرمانروا نیگوش تھا جسے عرب نجاشی کہا کرتے تھے اور جس کی حق شناسی اور استعداد ایمانی کی مدح خود کلام الہی نے کی ہے۔ اس عہد کے یہودیوں اور عیسائیوں کے اس اختلاف حال کا ذکر قرآن میں بھی موجود ہے اور اس کی علت بھی واضح کردی ہے۔ لیکن آگے چل کر جب اسلام کی دعوت زیادہ پھیل گئی تو وہ عیسائی ریاستیں جو عرب اور شام کے سرحدی علاقہ میں قائم ہوگئی تھیں اور رومی حکومت کے ماتحت تھیں اس تحریک کی ترقی گوارا نہ کرسکیں اور رومی شاہنشاہی کی پشت گری سے مغرور ہو کر آمادہ پیکار ہوگئیں۔ سب سے پہلا معاملہ حضرت حارث بن عمیر کی شہادت کا پیش آیا۔ آنحضرت نے انہیں دعوت اسلام کا خط دے کر موتہ بھیجا تھا جہاں کا رئیس شرحبیل بن عمرو غسانی تھا، اس نے انہیں بغیر کسی جرم و قصور کے قتل کرا دیا۔ اس صریح غدر و ظلم نے پیغمبر اسلام کو جنگ پر مجبور کردیا اور ایک فوج ٨ ہجری میں روانہ کی گئی۔ اس وقت شہنشاہ قسطنطنیہ بھی شام میں مقیم تھے۔ اس سے رئیس موتہ نے مدد مانگی اور شاہی فوج بھی میدان میں آگئی۔ تاہم فتح مسلمانوں ہی کو ہوئی۔ اس واقعہ کے بعد شام کے تمام عرب قبائل نے تہیہ کرلیا کہ مسلمانوں پر حملہ کردیں اور شہنشاہ قسطنطنیہ نے بھی ان کی اعانت کا فیصلہ کرلیا۔ چنانچہ ابھی ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ شاہی فوجیں شام میں جمع ہونے لگیں اور پیغمبر اسلام کو خود دفاع کے لیے نکلنا پڑا۔ یہی دفاعی اقدام ہے جو دفاعی اقدام ہے جو غزوہ تبوک کے نام سے مشہور ہوا۔ لیکن جب پیغمبر اسلام تبوک پہنچے تو معلوم ہوا مسلمانوں کے اس بے باکانہ اقدام نے دشمنوں کے ارادے پست کردیے اور اب حملہ کا ارادہ ملتوی ہوگیا ہے۔ اس سورت کی یہ آیتیں اس واقعہ کے بعد ہی نازل ہوئی تھیں اور چونکہ اب مسلمانوں پر اس جانب سے سخت حملہ ہونے والا تھا اور دوسری طرف عرب کے یہودی بھی اپنی سازشوں میں سرگرم تھے اس لیے ناگزری ہوگیا تھا کہ مشرکین عرب کی طرحح ان کے خلاف بھی جنگ کا اعلان کردیا جائے۔ پس اس آیت میں جنگ کرو کے حکم سے مقصود جنگ کی یہی صورت ہے۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ دنیا کے تمام یہودیوں اور عیسائیوں پر محض ان کے یہودی اور عیسائی ہونے کی وجہ سے حملہ کردو جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہوجائیں یا جزیہ نہ دیں جیسا کہ معترضین اسلام نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسا مطلب صرف وہی قرار دے سکتا ہے جو پورے قرآن سے پیغمبر اسلام کی زندگی سے صحابہ کے حالات سے اور تاریخ سے یک قلم آنکھیں بند کرلے۔ حکم قتال کے ساتھ یہ بات بھی واضح کردی کہ ان جماعتوں کو دعوت حق سے کیوں بغض ہوا اور کیوں راستی و عدالت سے منہ موڑ کر مسلمانوں کی ہلاکت و بربادی کے درپے ہوگئے؟ چنانچہ پہلے اہل کتاب کا نام نہیں لیا بلکہ ان کے چار سلبی وصف بیان کیے۔ یعنی جن لوگوں کے اوصاف کا یہ حال ہے ان سے ر استی و عدالت اور پاس عہد و قرار کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی اور وہ پیروان حق کی عداوت سے کبھی باز آنے والے نہیں، پس اگر ان سے جنگ نہ کی جائے تو چارہ کار کیا رہا ہے؟ فرمایا باوجود اہل کتاب ہونے کے اب ان کا حال یہ ہے کہ نہ تو اللہ پر ایمان باقی رہا ہے نہ آخرت پر، زبان سے دعوی کرتے ہیں کہ ہم مومن ہیں لیکن ان کا ہر عمل اعلان کرتا ہے کہ مومن نہیں۔ پھر اللہ اور اس کے سول نے جو کچھ حرام کردیا تھا اب ان کے لیے حرام نہیں ہے رہا۔ کیونکہ اول تو ہوائے نفس سے حیلے نکال کر کتنی ہی حرام چیزیں حلال کرلیں پھر حلت و حرمت کا حق بھی خدا و رسول کی جگہ اپنی فقہیوں اور پیشواؤں کے ہاتھ میں دے دیا، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جس دین حق کی انہیں حضرت موسیٰ اور مسیح علیہما السلام نے تعلیم دی تھی اسے یک قلم چھوڑ چکے ہیں۔ یہاں اہل کتاب کے ایمان کی اسی طرح نفی کی ہے جس طرح سورۃ بقرہ میں کی ہے کہ ( ومن الناس من یقول امنا باللہ وبالیوم الاخر وما ھم بمومنین) حکم جزیہ : (ب) اس کے بعد فرمایا (حتی یعطوا الجزیۃ عن ید وھم صاغرون) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھئ سے اٹھا کر جزیہ دے دیں اور ان کا گھمنڈ ٹوٹ چکا ہو۔ نہ صرف عربی زبان میں بلکہ تقریبا ہر زبان میں یہ محاورہ موجود ہے کہ کسی چیز کو خود اپنے ہاتھ سے دے دینا رضا مندی سے دینا ہوتا ہے۔ مثلا اردو میں کہیں گے تم اپنے ہاتھ سے اٹھا کر جو دے دو گے ہم لے لیں گے، یعنی اپنی خوشی سے جو کچھ دے دو وہی ہمارے لیے بہت ہے، ٹھیک مطلب عربی میں بھی اس ترکیب کا ہوتا ہے۔ پس مطلب یہ ہوا کہ وہ اپنی خوشی سے جزی ہدینا منظور کرلیں اور ان کا گھمنڈ اور ظلم جس نے انسان کے امن و راحت کو خطرہ میں ڈال دیا تھا باقی نہ رہے۔ (ج) عربی میں جزیہ خراج کے معنی میں بھی بولا گیا ہے جو اراضی سے وصول کیا جاتا ہے اور ٹیکس کے لیے بھی جو اشخاص پر عائد ہوتا ہے۔ ایران اور روم میں اس طرح کے ٹیکس لیے جاتے تھے اور عرب کے جن حصوں نے ان کی باج گزاری منظور کرلی تھی وہ اس طرح ٹیکسوں سے آشنا ہوگئے تھے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ نجران (یمن) کے عیسائیوں کا جب وفد آیا تو اس نے خود یہ بات پیش کی کہ ہم مسلمان تو نہیں ہوتے لیکن اطاعت قبول کرلیتے ہیں۔ آپ ہم پر جزیہ مقرر کردیں، غالبا یہ جزیہ لینے کا پہلا واقعہ ہے جو تاریخ اسلام میں پیش آیا، اس کے بعد بحرین کے یہودیوں اور مجوسیوں سے جزیہ لیا گیا۔ (د) یہاں جزیہ لینے کا جو حکم دیا گیا ہے وہ اگرچہ یہودیوں اور عیسائیوں کے ذکر میں آیا ہے لیکن اصلا حکم تمام غیر مسلموں کے لیے ہے جو اسلامی حکومت کے ماتحت رہنا منظور کرلیں۔ چنانچہ صدر اول سے لے کر آخر تک تمام اسلامی حکومتوں کا عمل اسی پر رہا۔ خود آنحضرت نے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا، صحابہ نے صحابیوں سے لیا اور خلفا بنو امیہ و عباسیہ کا سندھ کے ہندؤں اور پیروان بدھ سے لینا معلوم ہے۔ البتہ عرب کے غیر مسلموں کے بارے میں اختلاف ہے اور امام ابو حنیفہ اور قاضی ابو یوسف اس طرح گئے ہیں کہ ان سے جزیہ پر مصالح نہیں ہوسکتی لیکن اس بارے میں صحیح مذہب جمہور ہی کا ہے۔ یعنی عرب و عجم کی کوئی تفریق نہیں کیونکہ خود آنحضرت اور صحابہ کا عرب کے غیر مسلموں سے جزیہ لینا ایک مسلم واقعہ ہے۔ باقی رہے مشرکین عرب تو ان کا سوال عملا پیدا ہی نہیں ہوا کیونکہ سورۃ برات کے نزول کے بعد تمام مشرکین عرب مسلمان ہوچکے تھے اور حکمت الہی کا فیصلہ یہی تھا کہ جاہلیت عرب کا شرک پھر یہاں سر نہ اٹھائے۔ (ہ) قرآن نے غیر مسلموں سے جزیہ لینے کا حکم کیوں دیا؟ اس لیے کہ حق و انصاف کا مقتضا یہی تھا اور اس لیے کہ وہ چاہتا تھا مسلمانوں کے نظام حکومت میں غیر مسلموں پر اتنا بوجھ نہ ڈالا جائے جتنا بوجھ مسلمانوں کو اٹھانا پڑے گا۔ اسلام نے مسلمانوں پر جنگی خدمت فرض کردی تھی یعنی آج کل کی اصطلاح میں فوجی قانون جبری تھا اور اس لیے ضروری تھا کہ جو غیر مسلم اسلامی حکومت کے ماتحت شہری زندی بسر کریں وہ بھی ملک کی حفاظت کے لیے جنگ میں شریک ہوں لیکن اسلام نے اس اسے انصاف کے خلاف سمجھا کہ اس بارے میں غیر مسلموں پر جبر کیا جائے، اس نے یہ بات ان کی مرضی پر چھوڑ دی اور کہا اگر خود اپنی خوشی سے چاہو تو جنگی خدمات میں مسلمانوں کی طرح شریک ہو، نہ شریک ہونا چاہو تو اس کے بدلے ایک سالانہ رقم ادا کردیا کرو۔ یہی رقم تھی جو غیر مسلموں کے لیے جزیہ ہوئی۔ فی الحقیقت انسان کے عقائد و جذبات کی آزادی کا یہ ایسا اعتراف تھا جس کا اس عہد میں کوئی دوسری قوم تصور بھی نہیں کرسکتی تھی۔ جنگ کے لیے نکلنا اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ لینا ہے، مسلمان مسلمانوں کو اس کے لیے مجبور کرسکتے ہیں لیکن انہیں کیا حق ہے کہ غیر مسلموں کو اس کے لیے مجبور کریں؟ چنانچہ صحابہ کرام کے زمانہ میں غیر مسلموں کو جو سرکاری فرامین دییے گئے ان میں ہم صاف صاف اس کی تصریح پاتے ہیں۔ جو فوج میں شریک ہوگا اس سے جزیہ نہیں لیا جائے گا، جو نہ ہوگا اس سے جزیہ لیا جائے گا، بعض فرمانوں میں یہاں تک کہ سہولت دی ہے کہ اگر عام طور پر شریک نہیں ہوتے، صرف ایک برس شریک ہوگئے تو اس برس کی رقم معاف ہوجائے گی، طبری نے تاریخ میں اور بلاذری نے فتوح البلدان میں یہ فرامین نقل کیے ہیں۔ یہ تو پہلی علت ہوئی، دوسری علت کا یہ حال ہے کہ اسلام نے مسلمانوں پر کئی طرح کے ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیا تھا۔ زکوۃ انہیں ادا کرنی چاہیے، عام صدقات و خیرات میں انہیں حصہ لینا چاہیے، جنگ پیش آجائے تو اس کا بوجھ بھی اٹھانا چاہیے۔ پس ضروری تھا کہ غیر مسلم رعایا پر بھی ایسا ہی بوجھ ڈالا جاتا کیونکہ جہاں تک آزادی و حقوق کا تعلق ہے ان میں اور مسلمانوں میں کوئی امتیاز نہیں کیا گیا تھا، لیکن اسلام نے ایسا نہیں کیا۔ غیر مسلموں کو حقوق تو مسلمانوں ہی کی طرح دیے لیکن مالی بوجھ مسلمانوں کی طرح نہیں ڈالا۔ ان تمام ٹیکسوں کے بدلے جو مسلمانوں پر عائد کیے تھے صرف ایک ہی ٹیکس کی ادائیگی ضروری ٹھہرائی، یعنی جزیہ کی۔ اور وہ بھی انہیں معاف کردیا جو فوجی خدمت کے لیے تیار ہوجائیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ فی الحقیقت غیر مسلموں کے لیے کوئی بوجھ بھی نہ رہا اور حقوق سب کے سب رہے۔ یعنی اگر ایک غیر مسلم ذمی فوجی خدمت سے انکار نہ کرے (جو خود اسی کے وطن کی حفاظت کے لیے ہوگی) تو وہ اسلامی حکومت میں آزادی و حقوق کی ٹھیک ویسی ہی زندگی بسر کرے گا جیسی ایک مسلمان بسر کرسکتا ہے لیکن مسلمان کی طرح اسے کوئی ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑے گا۔ کیا اس طرز عمل کی کوئی دوسری نظیر تاریخ عالم سے پیش کی جاسکتی ہے؟ (و) جہاں تک غیر مسلموں کے مذہبی، معاشرتی اور شہری حقوق کا تعلق ہے موسیولیبان کا یہ قول کفایت کرتا ہے کہ اسلامی حکومت کے ماتحت غیر مسلموں ذمیوں کو وہ سب کچھ حاصل تھا جو کسی قوم کو حاصل ہوسکتا ہے، البتہ صرف ایک بات کا حق نہ تھا، یعنی وہ خلیفہ نہیں ہوسکتے تھے۔ (ز) آیت (٣٠) اور اس کے بعد کی آیتوں میں یہود و نصاری کی ان گمراہیوں کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں پڑ کر وہ دین حق سے منحرف ہوگئے۔ حضرت عیزر (علیہ السلام) کی نسبت یہودیوں کا اعتقاد : یہاں یہودیوں کا یہ قول جو قول نقل کیا ہے کہ عزیر خدا کے بیٹے ہیں تو اس سے مقصود یہودیوں کا عام اعتقاد نہیں ہے۔ بلکہ صرف ان یہودیوں کا اعتقاد ہے جو یثرب میں آباد تھے، چنانچہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ سلام بن شکم، نعمان بن اوفی، ابو انس، شاش بن قسی اور مالک بن صیف کے روسائے یہود میں سے تھے، آنحضرت کے پاس آئے اور کہا ہم آپ کی کس طرح پیروی کرسکتے ہیں جبکہ آپ نے ہمارا قبلہ ترک کردیا اور عزیر کو ابن اللہ نہیں مانتے۔ (ابن جریر) عزیر سے مقصود عزرا ہیں، بخت نصر کے حملہ بیت المقدس میں تورات کے تمام نسخے جل گئے تھے، اس لیے جب یہودی قید بابل سے چھوٹ کر واپس آئے تو ان کے پاس تورات کا کوئی نسخہ نہ تھا اور ان کی نئی نسل عبرانی زبان سے بھی نا آشنا ہوگئی تھی، یہ حالت دیکھ کر حضرت عزرا نے کلدانی حروف میں اور ایسی عبرانی میں کہ کلدانی زبان سے مخلوط تھی ازسر نو تورات کے صحائف لکھے اور یہی اصلی نسخہ کا بدل سمجھا گیا۔ چونکہ حضرت عزرا نے ازسر شریعت مرتب کی اور قید بابل کے بعد نئے دور کے بانی ہوئے، اس لیے یہودیوں میں ان کی شخصیت بہت ہی مقدس مانی گئی ہے۔ حتی کہ حضرت موسیٰ کا ہم رتبہ اور شریعت کا دوسرا بانی کہا گیا۔ چنانچہ آج تک یہودیوں کا عام اعتقاد یہ ہے کہ اگر اس عہد میں لوگوں سے قصور نہ ہوا ہوتا تو عزرا بھی وہ سارے معجزے دکھا دیتے جو حضرت موسیٰ نے دکھائے تھے۔ جب یہودیوں کا ان کی نسبت عام اعتقاد یہ ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہود یثرب کا غلو موجب تعجب ہو۔ شرح اتخاذ اربابا من دون اللہ : اس کے بعد آیت (٣١) میں اس گمراہی کی طرف اشارہ کیا ہے جو یہود و نصاری کی تمام فکری و عملی گمراہیوں کا سرچشمہ تھی یعنی انہوں نے خدا کو چھوڑ کر اپنے علماء و مشائخ کو پروردگار بنا لیا ہے، پروردگار بنا لینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ انہیں رب السموات والارض کہتے ہیں، کیونکہ اس طرح تو کبھی کسی نے کسی کو رب نہیں بنایا۔ مطلب یہ ہے کہ یہودیوں نے اپنے فقہیوں کو اور عیسائیوں نے اپنے پوپ اور اس کے مقرر کیے ہوئے پادریوں کو دین کے بارے میں جو منصب دے دیا ہے، ور وہ اپنے زاہدوں اور دریشوں کی نسبت جیسا کچھ اعتقاد رکھتے ہیں وہ فی الحقیقت انہیں مثل پروردگار کے بنا لینا ہے۔ چنانچہ خود پیغمبر اسلام نے اس کا یہی مطلب قرار دیا۔ عدی بن حاتم طائی جو پہلے عیسائی تھے، کہتے ہیں آنحضرت نے جب براۃ کی یہ آیت پڑھی تو میں نے عرض کیا، ہم انہیں پوجتے تو نہیں، آپ نے کہا کیا ایسا نہیں ہے کہ جس بات کو وہ حرام ٹھہرا دیتے ہیں تم حرام سمجھ لیتے ہو، جس بات کو حلال کردیتے ہیں حلال مان لیتے ہو؟ عرض کیا ہاں، فرمایا یہی انہیں پوجنا ہے۔ (ترمذی و بیہقی فی السنن) اس سے معلوم ہوا کہ اپنے دینی پیشواؤں کو تشریع دینی کا حق دے دینا یعنی اس بات کا حق دے دینا کہ وہ جو کچھ اپنی خواہش اور رائے سے ٹھہرا دیں اس کی بلا چوں و چرا تقلید و اطاعت کرنی چاہیے قرآن کے نزدیک انہیں رب بنا لینا ہے، کیونکہ اس بات کا حق اللہ کے سوا اور اللہ کی وحی کے مبلغ کے سوا اور کسی کو نہیں، پس جب دوسروں کو بھی یہ حق دے دیا گیا تو گویا وہ خدائی میں شریک کرلیے گئے۔ عیسائیوں میں ایک انسان بھی ایسا نہیں ہوا جس نے پوپ اور اس کے مقرر کیوے ہوئے فادرز کو خدا سمجھا ہو اور نہ یہودیوں نے کبھی اپنے ربیوں کو ایسا سمجھا لیکن ان کے عمل کا یہی حال رہا، گویا حق و باطل، حلال و حرام، عذاب و ثواب اور جنت و دوزخ کی تقسیم کا سارا اختیار انہی کے قبضہ میں ہے، وہ جو حلال کردیں حلال ہے، جو حرام کردیں حرام ہے، جسے چاہیں بخشش کا پروانہ دے دیں جسے چاہیں محروم و مردود کردیں، جنت کی کنجی بھی انہی کے ہاتھ میں ہے۔ دوزخ کا داروغہ بھی انہی کے زیر حکم، وہ ایسے مقدس ہیں کہ کوئی بات ان کی غلط نہیں ہوسکتی۔ اور اللہ نے انہیں ایسا بااختیار کردیا ہے کہ ان کے حکم سے کوئی بات باہر نہیں۔ ما شئت لا ماشائت الاقدار۔۔۔۔ فاحکم فانت الواحد القھار۔ اس گمراہی کا نتیجہ یہ نکلا کہ : اولا : خدا کی کتاب جو اس غرض سے نازل کی گئی تھی کہ لوگ اسے پڑھیں اور اس پر عمل کریں، یک قلم بے اثر و بے کار ہوگئی۔ کیونکہ اس کی جگہ انسانوں کی رایوں اور فیصلوں نے لے لی۔ ثانیا : ہدایت کا مرکز عملا خدا کا حکم نہ رہا انسانوں کا حکم ہوگیا۔ ثالثا : دینی پیشواؤں کا ایک گروہ پیدا ہوگیا جو لوگوں کو اندھا بہرا بنا کر جس طرح چاہتا اپنے اغراض کے لیے کام میں لاتا۔ رابعا : انسان کی عقلی ترقی کی تمام راہیں بند ہوگئیں، کیونکہ جب لوگوں نے اپنی سمجھ بوجھ سے کام لینا چھوڑ دیا اور اپنے بنائے ہوئے پیشواؤں کا حکم بلا دلیل ماننے لگے کہ یہی معنی تقلید کے ہیں تو ظاہر ہے کہ پھر عقل کی نشونما اور ترقی کے لیے کونسی راہ باقی رہ گئی؟ خامسا : تو ہم پرستی اور جہل و کوری کا دروازہ کھل گیا۔ کیونکہ جب اعتقاد و عمل کا دارومدار چند انسانوں کی رایوں پر آٹھہرا اور دوسروں کو اس کا حق نہ رہا کہ اپنی عقل و بینش سے کام لیں تو ظاہر ہے کہ عقل و بینش کی جگہ جہل و تو ہم ہی پھیلے گا اور جو خرافات کسی ٹھہرائے ہوئے پیشوا کی زبان سے نکل جائے گی لوگوں کے لیے دلیل و حجت کا کام دے گی۔ سادسا : دینی پیشوا اچھے انسان ہونے کی جگہ بے پناہ دیوتا بن گئے۔ اور ان کی ساری باتوں نے تقدیس و پاکی کا جامہ پہن لیا۔ کیونکہ جب انہیں اپنے پیروؤں کے لیے حکم و تشریع کی غیر مشروط طاقت مل گئی اور اپنے احکام و اعمال میں یک قلم غیر مسول ہوگئے تو پھر نفس انسانی کی شرارتیں ان سے جو کچھ بھی کرائیں کم ہے۔ یورپ کے اس عہد کی تاریخ پر نظر ڈالو جسے مورخ از منہ وسطی کے نام سے پکارتے ہیں بلکہ اس عہد کی بھی جو نشاۃ ثانیہ کے نام سے مشہور ہے، تمہیں ان نتائج کی ساری نظیریں اور مثالیں قدم قدم پر ملنے لگیں گی، صرف پوپ کے منصب کی نسلا بعد نسل تاریخ ہی دیکھ لی جائے اس کے لیے کفایت کرے گی۔ قرآن نے جس وقت یہ صدا بلند کی عیسائی دنیا تیار نہ تھی کہ اس کا جواب دیتی لیکن بالآخر اس سے اعراض نہ کرسکی، اس وقت تو قرآن کی اس دعوت کو عیسائیوں نے نہیں سمجھا لیکن یہ تخم ریزی برگ و بار لائے بغیر نہیں رہ سکتی تھی۔ صلیبی لڑائیوں میں جب یورپ کے عیسائیوں کو مسلمانوں سے ملنے اور اسلام کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تو اس کے اثرات کام کرنے لگے اور بالآخر لوتھر نے اصلاح کنبہ کی دعوت بلند کی۔ لوتھر اور کلیسا میں بنائے نزاع یہ تھی کہ حق کا معیار کیا ہے؟ کتاب اللہ یا پوپ کا اجتہاد؟ اور خدا کی کتاب اس لیے ہے کہ پڑھی جائے اور سمجھی جائے یا اس لیے کہ سب کچھ پوپ پر چھوڑ دیا جائے؟ نزاع کی ابتدا نجات کے مسئلہ سے ہوئی تھی یعنی نجات کا دارومدار ایمان پر ہے یا پوپ کی سند مغفرت پر؟ ظاہر ہے کہ یہ حرف بہ حرف اسی صدائے حق کی بازگشت تھی کہ (اتخذوا احبارھم ورھبانھم اربابا من دون اللہ) آج یہ واقعہ دنیا کے تاریخی حقائق میں سے سمجھا جاتا ہے کہ یورپ کی تمام ذہنی اور عملی ترقیوں کا دور اصلاح کنیسہ کی دعوت سے شروع ہوا۔ یہ سچ ہے لیکن اسی طرح یہ بھی سچ ہے کہ اصلاح کنیسہ کی بنیاد اس دن پڑتی تھی جس دن اللہ کے رسول نے نجران کے بشپ کو یہ دعوت اصلاح دی تھی : (یا اھل الکتاب تعالوا الی کمۃ سواء بیننا وبینکم الا نبعد الا اللہ ولا نشرک بہ شیا ولا یتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون اللہ) اور پھر اس دن جس دن سورۃ برات کی یہ آیت نازل ہوئی تھی۔ اگر چھٹی صدی عیسوی کے عیسائی جہل و تعصب نے اس دعوت سے انکار نہ کیا ہوتا تو وہ تمام تاریک صدیاں ظہور میں نہ آتیں جن کی وحشت انگیز سرگزشتیں تاریخ کو قلمبند کرنی پڑیں اور ازمنہ مظلمہ کے نام سے پکاری گئیں اور یقینا یورپ کے علم و عقلیت کی تاریخ چودھویں صدی کی جگہ ساتویں صدی سے شروع ہوجاتی۔ یہ سرگزشت تو عیسائی دنیا کی ہے جسے اس دعوت حق نے مخاطب کیا تھا لیکن خود مسلمانوں کا کیا حال ہوا جنہیں اس دعوت کی تبلیغ سپرد کی گئی تھی؟ افسوس ہے کہ وہ کود بھی اس گمراہی سے بچ نہ سکے اور انہوں نے بھی تشریع دینی کا حق کتاب و سنت کی جگہ انسانوں کی رایوں کے حوالہ کردیا۔ اعتقادا انہیں عملا، اور سوال یہاں عمل ہی کا ہے نہ کہ اعتقاد کا، نتیجہ یہ نکلا کہ وہ تمام مفاسد ظہور میں آگئے جن کا دروازہ قرآن نے بند کرنا چاہا تھا۔ اور سب سے بڑا فساد یہ پیدا ہوا کہ صدیوں سے ان کی عقلی ترقی یک قلم رک گئی اور تقلید نے علم و بصیرت کی راہوں سے انہیں دور کردیا، حتی کہ اب معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ ایک طرف مسلمانوں کی معاشرتی و اجتماعی زندگی مختل ہورہی ہے کیونکہ اس کی ضرورتوں کے مطابق احکام فقہ نہیں ملتے اور شریعت کو فقہ کے مذاہب مدد نہ ہی میں منحصر سمجھ لیا گیا ہے۔ دوسری طرف تمام اسلامی حکومتوں نے قوانین شرع پر عمل درآمد ترک کردیا ہے اور اس کی جگہ یورپ کے دیوانی و فوجداری قوانین اختیار کرنے لگی ہیں۔ کیونکہ انہوں نے دیکھا کہ دفاتر فقہ وقت کے انتظامی و معاشرتی مقتضیات کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ اور کوئی نہیں جو انہیں بتلائے کہ اللہ کی شریعت کا دامن اس نقص سے پاک ہے اور اگر وہ کتاب و سنت کی طرف رجوع کرتے تو انہیں اس زمانے کے لیے بھی ویسے اصلح و افوق قوانین مل جاتے جس طرح پچھلے عہدوں کے لیے مل چکے ہیں۔ فیا اللہ وللمسلمین۔ من ھزہ الفاقرۃ التی ھی اعظم فواقر الدین والرزیۃ التی مارزی بمثلھا سبیل المومنین۔ اکل اموال بالباطل : (ط) چونکہ پچھلی آیت میں احباب اور رہبان کا ذکر کیا گیا تھا اس لیے آیت (٣٤) میں خصوصیت کے ساتھ مسلمانوں کو مخاطب کر کے ان کی حالت بیان فرمائی ہے تاکہ اس سے نصیحت پکڑیں۔ قرآن نے یہاں اور متعدد مقامات میں یہود و نصاری کے علمائے و مشائخ کی ایک بہت بڑی گمراہی یہ بتلائی ہے کہ ناجائز طریقہ پر لوگوں کا مال کھالینے میں بے باک ہوگئے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ٹھیک طور پر سمجھ لیا جائے اس سے مقصود کیا ہے؟ یہ مقصود تو نہیں ہوسکتا کہ وہ لوگوں کے مال پر اعلانیہ ڈاکے ڈالتے تھے، ضرور کوئی ایسی ہی بات ہوگی جو ان کی روزانہ زندگی کے اعمال میں داخل ہوگئی تھی اور جس کا نتیجہ اکل بالباطل تھا۔ یہودیوں اور عیسائیوں کے مذہبی حلقوں اور اداروں کی تاریخ اب منضبط ہوچکی ہے، اس پر نظر ڈالی جائے تو بے شمار باتیں سامنے آئیں گی لیکن خصوصیت کے ساتھ حسب ذیل امور قابل غور ہیں : (١) پادشاہوں اور امیروں کی مطلب براریوں کے لیے حلال کو حرام، حرام کو حلال بنا دیتے اور اس کے فتوے دے کر انعام و اکرام لیتے، حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنا دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ شریعت کے کسی حکم سے انکار کردیتے تھے۔ بلکہ یہ ہے کہ اس کے حکموں کو توڑ مروڑ کر یا طرح طرح کے حیلے بہانے نکال کر ایسی صورتیں بنا لیتے ہیں کہ امیروں کی ہوائے نفس پوری ہوجائے۔ مثلا کوئی امیر اپنے دشمن سے انتقام لینا چاہتا ہے تو یہ اس کے کفر کا فتوی تیار کر کے دے دیتے کہ شرعا اسے قتل کرنا جائز ہے۔ بیوی سے نجات حاصل کرنی چاہتا تو فتوی دے دیتے کہ نکاح قائم نہیں رہا، اگر کسی روپیہ پیسے والے سے کوئی ایسی بات ہوجاتی جس کی شرع میں تعزیر ہے وار وہ روپیہ دے کر بچنا چاہتا تو مسئلہ کی کوئی ایسی صورت کھینچ تان کے بنا دیتے کہ تعزیر ساقط ہوجاتی۔ پادشاہوں اور امیروں کے نکاح و طلاق کے بارے میں پوپ اور کارڈینیلوں کی دین فروشیاں تاریخ یورپ کے ایسے مشہور واقعات ہیں کہ محتاج بیان نہیں۔ (٢) ناجائز طریقہ پر مال کھانے کی ایسی صورتیں نکالتے کہ مثلا فلاں جماعت کافروں اور بت پرستوں کی جماعت ہے۔ ان کا مال دھوکے فریب سے بھی کھالیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں بلکہ ثواب ہے۔ چنانچہ علمائے یہود کا مشرکین عرب کی نسبت ایسا ہی فتوی تھا۔ سورۃ آل عمران میں گزر چکا ہے : (ذلک بانھم قالوا لیس علینا فی الامیین سبیل) (٣) معاملات و قضا یا رشوت لے کر فیصلے کرتے۔ قرون وسطی میں پوپ سے لے کر کسی گاؤں کے ایک پادری تک جس طرح بات بات میں رشوتیں لیا کرتے تھے تاریخ کے مسلمات میں سے ہے۔ (٤) راہبوں میں سے جو شخص زیادہ شہرت حاصل کرلیتا لوگ سمجھتے اسے روحانی تسلط و تصرف کا مقام حاصل ہوگیا ہے اور وہ جو چاہے کرسکتا ہے، پس ہر طرح کی حاجتیں لے کر اس کے پاس آتے اور وہ ان سے طرح طرح کی نذریں لے کر انہیں یقین دلا دیتا کہ تمہاری حاجت روائی کا سامان ہوگیا۔ (٥) تمام مذہبی اعمال و رسوم کے لیے باقاعدہ قیمتیں مقرر کردی تھیں اور اس غرض سے کہ آمدنی کے وسائل زیادہ سے زیادہ بڑھیں ہمیشہ نئی نئی رسمیں اور نئی نئی تقریبیں نکالتے رہتے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مذہبی زندگی کے تمام اعمال خریدوفروخت کا معاملہ بن گئے۔ کوئی نماز پڑھے تو اس کے لیے کچھ نہ کچھ خرچ کرے، روزہ رکھے تو اس کے لیے نذرانہ نکالے، شادی غمی ہوجائے تو اس کے لیے فیس مقرر، وعظ و نصیحت کی محفل کرنی چاہے تو اس کے لیے باقاعدہ رقوم، حتی کہ کوئی خدا سے دعا بھی نہیں کراسکتا جب تک کہ اس کا مقررہ نذرانہ ادا نہ کردے۔ (٦) کتاب اللہ کے علم و تعلم کو صرف اپنے ہی طبقہ کے لیے مخصوص کرلیا کہ یہ عوام کے سمجھنے کی چیز نہیں ہے۔ صرف تبرکا سن کر ثواب کمالینے کی چیز ہے۔ اور پھر جو بہ نیت ثواب سننا چاہے اسے معاوضہ لے کر سنانے لگے۔ چنانچہ علمائے یہود نے تورات خوانی کو پیشہ بنا لیا تھا اور روم کیتھولک چرچ کے راہب آج تک ایک ایک گھر میں جاکر انجیل سناتے اور اس کی قیمت وصول کرتے ہیں۔ (٧) عوام میں یہ اعتقاد پیدا کردیا کہ نجات کا سر رشتہ انہی کے ہاتھ میں ہے۔ جسے چاہیں بخش دیں، جسے چاہیں نہ بخشیں اور پھر اس غرض سے اعتراف گناہ (Confession) کا طریقہ رائج کیا یعنی ہر عیسائی کے لیے ضروری ہوگیا کہ کسی پادری کے سامنے جو اس غرض سے مقرر ہو اپنے گناہوں کا اقرار کرے اور وہ اسے مسیح کے نام پر بخش دے۔ اصلاح کے بعد نئے کلیسا نے یعنی پروٹسٹنٹ نے اس سے انکار کردیا لیکن کیتھولک کلیسا کے معتقدین میں آج تک رائج ہے۔ (٨) اس سے بھی بڑھ کر جلب زر کا یہ طریقہ نکالا گیا کہ مغفرت کے پروانے فروخت کیے جانے لگے۔ یعنی جو شخص ایک خاص مقررہ قیمت ادا کردیتا اسے نجات کا مقدس پروانہ مل جاتا اور اس پروانہ کے حصول کا مطلب یہ سمجھا جاتا تھا کہ اب کتنے ہی معاصی و جرائم کیے جائیں آسمان میں کوئی پرسش نہ ہوگی۔ مورخین نے تصریح کی ہے کہ اس تجارت کو اس قدر فروغ ہوا تھا کہ کاروباری آدمیوں پوپ سے اس کی فروخت کا ٹھیکہ لینا شروع کردیا تھا۔ لوتھر کے دل میں سب سے پہلے اسی معاملہ نے خلش پیدا کی تھی۔ (٩) طرح طرح کے تبرکات اور آثار بنائے تھے اور عوام کے دلوں میں اعتقاد پیدا کردیا تھا کہ جس کسی نے ان کی زیارت کرلی یا انہیں چھو لیا اسے دین و دنیا کی ساری برکتیں مل گئیں۔ مثلا لکڑی کا کوئی ٹکڑا، جس کی نسبت یقین دلایا جاتا تھا کہ یہ اسی صلیب کا ہے جس پر حضرت مسیح کو سولی دی گئی تھی یا کسی سینٹ کا ناخن یا کوئی کپڑا یا تسبیح۔ لوگ ان کی زیارت کرتے اور مقررہ نذریں ادا کرتے، ان تبرکات پر ہیکل بھی تعمیر کیے جاتے تھے جو آج تک موجود ہیں۔ (١٠) اکل اموال بالباطل کا ایک بڑا ذریعہ مقامر و مشاہد کی مجاوری بھی ہوئی۔ چنانچہ عیسائیوں میں یہ معاملہ اس قدر بڑھا کہ حج و زیارت کا مرکز یہی مقامات بن گئے اور ایک دنیا کی دولت وہاں سمٹ آئی۔ (١١) چونکہ دین میں اخلاص باقی نہیں رہا تھا اس لیے جب کبھی دیکھتے کہ شریعت کا کوئی حکم ان کی دنیا پرستیوں میں روک ہے تو فورا کوئی نہ کوئی شرعی حیلہ نکال لیتے۔ قرآن نے اصحاب سبت کے حیلہ کا ذکر کیا ہے۔ اور اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ انہیں سود کے لین دین سے روکا گیا تھا مگر وہ بلا تامل کھانے لگے۔ اس باب میں تورات کا حکم کیا تھا اور علمائے یہود نے کس طرح یکے بعد دیگرے حیلے نکالے اس کی تشریح البیان میں ملے گی۔ (١٢) جو مرجائے اسے ثواب پہنچانے اور اس کے گناہوں کا کفارہ دلانے کے لیے مقررہ رقمیں وصول کرتے اور اس غرض سے طرح طرحح کی رسمیں رائج کردی تھیں، چنانچہ یہودیوں اور کیتھولک عیسائیوں میں آج تک رائج ہیں۔ (١٣) سب سے آخر مگر سب سے اول یہ کہ دین کی ساری باتوں کو یک قلم دکانداری اور پیشہ بنا لیا تھا اور ان کی پوری زندگی ہر معنی میں دکانداری کی زندگی ہوگئی تھی۔ عالم اور درویش ہونے کے معنی ہی یہ ہوگئے کہ دین اور خدا کے نام سے پیشہ کی روٹی کھانے والے۔ علم دین کا پڑھنا، پڑھانا، مسائل دین کی تعلیم، فتوی نویسی، ہدایت و وعظ، قرات و ذکر کوئی کام ایسا نہ تھا جو بغیر دنیوی معاوضہ کے کیا جاتا ہو۔ قرآن نے مسلمانوں کو مخاطب کر کے ان کی اس گمراہی کی طرف اس لیے اشارہ کیا تاکہ واضح ہوجائے ان کا ایمان سے محروم ہوجانا اور دین حق کا عملا ترک کردینا دراصل ان کے علماء و مشائخ کی ان گمراہیوں اور دنیا پرستیوں کا نتیجہ تھا۔ لیکن آج مسلمان اور مسلمانوں کے علماء و مشائخ اپنی حالت پر نظر ڈالیں اور غور کریں کہ کیا وہ بھی ٹھیک ٹھیک احبار و رہبان کے قدم بہ قدم نہیں چل رہے ہیں؟ اور کیا اکل اموال بالباطل کی یہ تمام صورتیں کسی نہ کسی بھیس میں یہاں بھی کام نہیں کر رہی ہیں؟ حضرت شاہ ولی اللہ نے اب سے دو سو برس پہلے فوز الکبیر میں لکھا تھا کہ اگر احبار یہود کی حالت دیکھنی چاہتے تو آج کل کے علما کو دیکھ لو، اور اگر عیسائیوں کے رہبان کا نقشہ کھینچنا چاہتے ہو تو آج کل کے مشائخ کے سامنے بیٹھ کر کھینچ لو۔ قرآن نے اس آیت میں یہ بات تمام احبار و رہبان کی طرف منسوب نہیں کی ہے بلکہ اکثر کی طرف منسوبب کی ہے اور اس طرحح کے مواقع میں اس کا عام انداز یہی ہے۔ مثلا اہل کتاب ہی کی نسبت دوسری جگہ فرمایا ہے : (وان اکثرکم فاسقون) تم میں سے اکثر فاسق ہیں۔ یہ نہیں کہا کہ تم سب فاسق ہو، کیونکہ اگر ایسا کہا جاتا تو گو اس اعتبار سے حق ہونا کہ اکثریت کا حکم کل ہو کا ہوتا ہے، لیکن پھر بھی حقیقت حال کی پوری تعبیر نہ ہوتی اور یہ مطلب نکالا جاسکتا کہ یہودیوں اور عیسائیوں کا ایک ایک فرد بلا استثنا اسی طرح کا ہوگیا ہے۔ حالانکہ ان میں خال خال ایماندار اور مخلص افراد بھی موجود تھے۔ یہ بات نہ تھی کہ پوری امت میں ایک فرد بھی نیک راہ پر نہ رہا ہو۔ نسی کی حقیقت : (ی) آیت (٣٦) میں نسی سے مقصود کیا ہے؟ اسے خود قرآن نے بتلا دیا ہے اور صحابہ کرام نے مزید تشریح کردی لیکن بعد کو مفسروں کی کاوشوں نے اور خصوصا علمائے ہیئت کی دقیقہ سنجیوں نے اسے ایک پیچیدہ سوال بنا دیا۔ غالبا ابو معشر فلکی پہلا شخص ہے جس کا خیال اس طرح گیا کہ یہ کبیسہ کا معاملہ تھا۔ پھر ابو ریحان بیرون نے بھی اسی کی پیروی کی۔ گزشتہ صدی کے بعض مستشرقین یورپ کو بھی اس مسئلہ پر خصوصیت کے ساتھ توجہ ہوئی کیونکہ انہوں نے خیال کیا اس سے عرب جاہلیت کی تقویمی معلومات پر روشنی پڑے گی۔ چنانچہ پوکاک، دی ساسی، گاسین دی پرسیول، اسپرنگر، دل ہواسن غیرہم نے اس پر طول طویل بحثیں کی ہیں اور زمانہ حال کا ایک اطالوی مستشرق پرنس کائتانی بھی اپنی زیر تصنیف تاریخ اسلام کی پہلی جلد میں اس پر بحث کرچکا ہے۔ مستشرقین ہی کی صف میں محمود پاشا فلکی کو بھی شمار کرنا چاہیے جس نے کبیسہ کا نظریہ تسلیم کر کے یہ کوشش کی کہ اس عہد کے شمسی مہینوں کی تقویمی حالت منضبط کی جائے۔ لیکن حق یہ ہے کہ اس نظریہ کے لیے کوئی تاریخی بنیاد موجود نہیں اور صاف بات وہی معلوم ہوتی ہے جس کی طرف خود قرآن نے اشارہ کردیا ہے اور آثار صحابہ میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ عرب میں حضرت اسماعیل کے زمانہ سے یہ بات چلی آتی تھی کہ سال کے چار مہینے امن کے مہینے ہیں۔ ان میں لڑائی نہیں ہونی چاہیے۔ رجب، ذیقعدہ، ذی الحجہ، محرم۔ اسی لیے انہیں اشہر الحرم کہتے تھے یعنی حرمت کے مہینے۔ نیز قمری مہینوں کے حساب سے کہ قدرتی حساب ہے حج کا مہینہ بھی متعین تھا اور وہ اسی نام سے پکارا جاتا تھا۔ یعنی ذی الحجہ، اسی مہینے کی آٹھویں، نویں، دسویں، حج کے اعمال و رسوم کے دن سمجھے جاتے تھے۔ ایک مدت تک یہ بات اسی طرح قائم رہی لیکن پھر لوگوں پر اس حکم کی پابندی شاق گزرنے لگی۔ اول تو اس لیے کہ قمری مہینوں کے حساب کی وجہ سے حج کا زمانہ ہمیشہ ایک ہی موسم میں نہ آتا۔ بدلتا رہتا۔ اور اس کی وجہ سے قریش کے سفر تجارت میں خلل پڑتا۔ ثانیا امن کے مہینوں کا معاملہ بھی ان کے جنگ جو یا نہ مقاصد کے خلاف واقع ہوا تھا۔ ایک قبیلہ کو دوسرے قبیلہ سے کتنی ہی عداوت ہو اور انتقام کا کتنا ہی موزوں موقع سامنے دیکھے لیکن اس کی جرات نہیں کرسکتا تھا کہ ان مہینوں کی بے حرمتی کر کے اعلان جنگ کردے۔ چونکہ عرب جاہلیت کی طبیعتوں کے لیے نہ تو دینی قیود تھے نہ علمی حدود اس لیے مطلب براری کا ایک ڈھنگ نکال لینے میں انہیں کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ وہ ڈھنگ یہ تھا کہ امن کے مہینوں کا معاملہ ان کے قدرتی حساب پر موقوف نہیں رکھا بلکہ اس کے لیے ایک خود ساختہ اعلان ضروری ٹھہرا دیا جو حج کے موقع پر کیا جاتا تھا۔ اس اعلان کے ذریعہ حسب ضرورت اس کے مہینے پیچھے ڈال دیتے یا حج کا مہینہ موخر کردیتے۔ مثلا محرم امن کا مہینہ تھا، اعلان کردیا جاتا کہ اس سال محرم صفر میں واقع ہوگا، نتیجہ یہ نکلتا کہ محرم کا حقیقی مہینہ حکما معدوم ہوجاتا اور اس میں لڑائی شروع ہوجاتی پھر جب یہ فرق بہت دور تک پہنچ جاتا تو اسے لوٹانا شروع کردیتے۔ یہاں تک کہ اصلی مہینوں کی ترتیب پھر قائم ہوجاتی۔ چونکہ یہ طریقہ سرتا سر جہل و فساد پر مبنی تھا اور اس کی وجہ سے تو تقویم کا کوئی معیار باقی رہا تھا نہ امن و جنگ کے ایام کا، اس لیئے ضروری تھا کہ اس کا قطعا انسداد کردیا جائے اور حج کے لیے ایک معین اور قطعی زمانہ مقرر ہوجائے، اگر فی الحقیقت اس معاملہ کی بنیاد کسی حسابی قاعدہ پر ہوتی تو کوئی وجہ نہ تھی کہ قرآن اسے زیادۃ فی الکفر سے تعبیر کرتا۔ اسلام کا جب ظہور ہوا تو عرب میں قمری مہینوں کا حساب رائج تھا۔ اس نے بھی اپنے اعمال و عبادات کے لیے اسی حساب پر اعتماد کیا، کیونکہ انسان کے لیے مہینوں کا قدرتی حساب یہی ہے۔ چاند چھپتا ہے اور پھر نکلتا ہے اور ہر شخص خواہ کسی متمدن شہر میں رہتا ہو خواہ صحرا میں، معلوم کرسکتا ہے کہ کب مہینہ ختم ہوا اور کب شروع ہوا۔ اس کے لیے نہ تو علم ہیئت کی حساب دانیوں کی ضرورت ہے نہ تقوی کی جدولوں کی۔ علاوہ بریں موسموں اور طلوع و غروب کے وقتوں کی جو تبدیلیاں قدرتی طور پر ہوتی رہتی ہیں وہ سب اس حساب میں پیش آتی رہتی ہیں۔ مثلا رمضان اور حج کا مہینہ ہمیشہ گردش میں رہتا ہے، کبھی کسی موسم میں آتا ہے، کبھی کسی موسم میں، اور اس طرح ہر انسان کو اپنی زندگی میں پورا موقع مل جاتا ہے کہ یہ اعمال ہر طرح کے موسموں اور ان کے تاثرات کے ساتھ انجام دے جس میں بے شمار مصلحتیں ہیں اور یہ موقع تفصیل کا نہیں۔ تشریح مصارف زکوۃ: (ک) آیت (٦٠) مصارف زکوۃ کے باب میں اسل ہے اور ضروری ہے کہ بعض مہمات واضح ہوجائیں۔ (ا) ہم نے ترجمہ میں فقرا اور مساکین کے لیے دوسرے الفاظ اختیار نہیں کیے کیونکہ عربی میں فقر اور مسکنت سے مقصود احتیاج کی دو مختلف حالتیں ہیں اور ضروری ہے کہ ان کی لغوی نوعیت بجنسہ قائم رکھی جائے۔ فقیر اور مسکین : فقیر اور مسکین دونوں سے مقصود ایسے لوگ ہیں جو محتاج ہوں، لیکن فقر عام ہے اور مسکنت کی حالت خاص ہے۔ فقیر اسے کہیں گے جس کے پاس ضروریات زندگی کے لیے کچھ بھی نہیں۔ مسکین وہ ہے جس کی احتیاج ابھی اس آخری درجہ تک تو نہیں پہنچی مگر پہنچ جائے گی اگر خبر گیری نہ کی جائے۔ مثلا سوسائٹی کے ایسے افراد جو مختلف اسباب سے مفلس ہوگئے ہیں یا وسائل معیشت کا اہتمام نہیں کرسکتے۔ ان کے جسم پر اجلے کپڑے ابھی باقی ہیں، گھر میں تھوڑا بہت سامان بھی نکل آئے، ممکن ہے دو چار روپے بھی جیب میں موجود ہوں، اگر انہیں آج کھانا نہ ملے تو بھوکے نہیں رہیں گے، کل نہ ملے تو برتن بیچ لیں گے۔ پرسوں نہ ملے تو کپڑے فروخت کر ڈالیں گے، لیکن پھر اسکے بعد تو کوئی وسیلہ معاش سامنے نہیں دیکھتے۔ فقیر اور مسکین میں اس لحاظ سے بھی فرق ہے کہ فقیر کو سوال کرنے میں عار نہیں ہوتا، لیکن مسکین کو اس کی خودداری اور عفت نفس طلب و الحاح کی اجازت نہیں دیتی۔ بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں خود آنحضرت نے مسکین کی یہ تعریف کی ہے کہ (الذی لا یجد غنی یغنیہ، ولا یفطن فیتصدق علیہ، ولا یقوم فیسال الناس) جسے ایسے وسائل میسرے نہیں کہ تونگر کردیں، جس کا فقر ظاہر نہیں کہ لوگ خیرات دیں، جو خود سوال کے لیے کھڑا نہیں ہوتا کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے، اور پھر اسی حدیث میں سورۃ بقرہ کی آیت (٢٧٣) کی طرف اشارہ فرمایا کہ (یحسبھم الجھال اغنیاء من التعفف، تعرفھم بسیمھم، لا یسئلون الناس الحافا) ان کی خودداری کا یہ حال ہے کہ نا واقف خیال کرے یہ تو تونگر ہیں۔ تم انہیں ان کے چہروں سے پہچان سکتے ہو، مگر وہ لوگوں کے پیچھے پڑ کر کبھی سوال نہیں کرتے۔ بلاشبہ ایسے علمائے دین جو سورۃ بقرہ کی آیت متذکرہ صدر کے مصداق ہوں کہ (الذین احصروا فی سبیل اللہ لا یستطیعون ضربا فی الارض) یعنی دین کی تعلیم و خدمت کے لیے وقف ہوگئے ہوں اور فکر معیشت کے لیے وقت نہ نکال سکیں، مساکین میں داخل ہیں۔ بشریطکہ انہوں نے تعلیم دین کو حصول زر کا پیشہ نہ بنا لیا ہو، ما یحتاج سے زیادہ نہ لیتے ہوں اور کسی حال میں خود سائل و ساعی نہ ہوتے ہوں۔ نیز وہ تمام افراد جو ان کی طرح خدمت دین و امت کے لیے وقف ہوجائیں اور معیشت کا کوئی سامان نہ رکھتے ہوں۔ قوم کے تمام ایسے افراد جن پر وسائل کی تنگی کی وجہ سے معیشت کے دروازے بند ہورہے ہیں اور اگرچہ وہ خود پوری طرح ساعی ہیں لیکن نہ تو نوکری ہی ملتی ہے نہ کوئی اور راہ معیشت نکلتی ہے یقینا مساکین میں داخل ہیں اور اس مد کے اولیں مستحق ہیں لیکن اس کا انتظام اس طرح ہونا چاہیے کہ ان کی خبر گیری بھی ہوجائے اور ساتھ ہی ان میں بیکاری کی عادت اور اپاہج پنا بھی پیدا نہ ہو۔ یہ بات نہ صرف ان کی اعانت میں بلکہ تمام مستحقین کی اعانت میں ملحوظ رہنی چاہیے۔ ایسے افراد جو خوشحال تھے لیکن کاروبار کی خرابی کی وجہ سے یا کسی اور ناگہانی مصیبت کی وجہ سے مفلس ہوگئے ہیں اگرچہ اپنی پچھلی حیثیت کی بنا پر معزز سمجھے جاتے ہیں حکما مساکین میں داخل ہیں اور ضروری ہے کہ اس مد سے ان کی بھی خبر گیری کی جائے۔ مصارف ثمانیہ : (٢) ان مصارف کے بیان سے مقصود یہ ہے کہ زکوۃ کی ہر رقم ان سب میں وجوبا تقسیم کی جائے یا یہ کہ ہے کہ خرچ انہی میں کی جاسکتی ہے جس مصرف میں خرچ کرنا ضروری ہو اسی میں خرچ کی جائے؟ تو اس بارے میں فقہا نے اختلاف کیا لیکن جمہور کا مذہب یہی ہے کہ تمام مصارف میں بیک وقت تقسیم کرنا ضروری نہیں۔ جس وقت جیسی حالت اور جیسی ضرورت ہو اسی کے مطابق خرچ کرنا چاہیے اور یہی مذہب قرآن و سنت کی تصریحات اور روح کے مطابق ہے۔ ائمہ اربعہ میں صرف امام شافعی اس کے خلاف گئے ہیں۔ (٣) یہ آٹھ مصارف جس ترتیب سے بیانن کیے ہیں اگر غور کرو گے تو معلوم ہوجائے کہ معاملہ کی قدرتی ترتیب یہی ہے۔ سب سے پہلے ان دو گروہوں کا ذکر کیا جو استحقاق میں سب سے زیادہ مقدم ہیں کیونکہ زکوۃ کا اولین مقصود انہی کی اعانت ہے۔ یعنی فقراء و مساکین۔ پھر اس گروہ کا ذکر کیا جس کی موجودگی کے بغیر زکوۃ کا نظام قائم نہیں رہ سکتا، اور اس اعتبار سے اس کا تقدم ظاہر ہے لیکن چونکہ اس کا استحقاق بالذات نہیں تھا، اسلیے اولین جگہ نہیں دی جاسکتی تھی۔ پس دورسی جگہ پائی یعنی (العالمین علیھا) پھر (المولفۃ قلوبھم) کا درجہ ہوا کہ ان کا دل ہاتھ میں لینا ایمان کی تقویت اور حق کی اشاعت کے لیے ضروری تھا، پھر غلاموں کو آزاد کرانے اور قرضداروں کو بار قرض سے سبکدوش کرانے کے مقاصد نمایاں ہوئے جو نسبتا موقت اور محدود تھے۔ پھر فی سبیل اللہ کا مقصد رکھا گیا کہ اگر مستحقین کی پھچلی جماعتیں کسی وقت مفقود ہوگئی ہوں یا کم ہوگئی ہوں یا مقتضیات وقت نے ان کی اہمیت کم کردی ہو یا مال زکوۃ کی مقدار بہت زیادہ ہوگئی ہو تو ایک جامع و حاوی مقصد کا دروازہ کھول دیا جائے جس میں دین وامت کے مصالح کی ساری باتیں آجائیں۔ سب کے آخر میں ابن السبیل کی جگہ ہوئی کیونکہ تقدم میں یہ سب سے کم اور مقدار کے لحاظ سے بہت ہی محدود صورت میں پیش آنے والا مصرف تھا۔ سبیل اللہ : (٤) قرآن کی اصطلاح میں وہ تمام کام جو براہ راست دین و ملت کی حفاظت و تقویت کے لیے ہوں سبیل اللہ کے کام ہیں۔ اور چونکہ حفظ و صیانت امت کا سب سے زیادہ ضروری کام دفاع ہے اس لیے زیادہ تر اطلاق اسی پر ہوا۔ پس اگر دفاع درپیش ہے اور امام وقت اس کی ضرورت محسوس کرتا ہے کہ مد زکوۃ سے مدد لی جائے تو اس میں خرچ کیا جائے گا۔ ورنہ دین و امت کے عام مصالح ہیں۔ مثلا قرآن اور علوم دینیہ کی ترویج و اشاعت میں، مدارس کے اجراء و قیام میں، دعاۃ و مبلغین کے قیام و ترسیل میں، ہدایت و ارشاد امت کے تمام مفید وسائل میں۔ حکم زکوۃ اور اسلام کا نظام اجتماعی : (٥) دنیا میں کوئی دین نہیں جس نے محتاجوں کی اعانت اور ابنائے جنس کی خدمت کی تلقین نہ کی ہو اور اسے عبادت یا عبادت کا لازمی جز نہ قرار دے دیا ہو لیکن یہ خصوصیت صرف اسلام کی ہے کہ وہ صرف اتنے ہی پر قانع نہیں ہوا بلکہ ہر مستطیع مسلمان پر ایک خاص ٹیکس مقرر کردیا جو اسے اپنی تمام آمدنی کا حساب کر کے سال بہ سال ادا کرنا چاہیے اور پھر اسے اس درجہ اہمیت دی کہ اعمال میں نماز کے بعد اسی کا درجہ ہوا وار قرآن نے ہر جگہ دونوں عملوں کا ایک ساتھ ذکر کر کے یہ بات واضح کردی کہ کسی جماعت کی اسلامی زندگی کی سب سے پہلی شناخت یہی دو عمل ہیں۔ نماز اور زکوۃ۔ اگر کوئی جماعت بحیثیت جماعت کے انہیں یک قلم ترک کردے گی تو اس کا شمار مسلمانوں میں نہ ہوگا۔ اور یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام نے مانعین زکوۃ سے قتال کیا اور حضرت ابوبکر نے کہا (واللہ لاقاتلن من فرق بین الصلوۃ والزکوۃ) (متفق علیہ) بلاشبہ حضرت مسیح کے مواعظ اس بارے میں بہت دور تک چلے گئے ہیں۔ انہوں نے صرف یہی ہ نہیں کہا کہ اتنا دے دو بلکہ کہا سب کچھ دے دو، لیکن چونکہ اسلام کی طرح کوئی معین نظم قائم نہیں کیا اس لیے یہ تعلیم محض زہد و ترک دنیا کا ایک اعلی مقام بن کر رہ گئی اور مسیحیت کے صدر اول کے سوا (جبکہ کلیسا کی بنیاد باہمی اخوت و اشتراک پر قائم کی گئی تھی) کوئی زمانہ ایسا ظہور میں نہ آسکا کہ عیسائیوں میں اس تعلیم کے نتائج نے نشوو نما پایا ہو۔ (٦) پھر اس باب میں اس کی ایک دوسری خصوصیت بھی ہے یعنی وہ علت جو نہ صرف زکوۃ کے لیے بلکہ تمام صدقات و خیرات کے لیے قرار دی گئی اور جس کی وجہ سے اس معاملہ نے بالکل ایک دوسری ہی نوعیت اختیار کرلی۔ (کی لا یکون دولۃ بین الاغنیاء منکم) تاکہ ایسا نہ ہو مال و دولت صرف دولت مندوں کے گروہ ہی میں محصور ہو کر رہ جائے۔ یعنی زکوۃ کا مقصد یہ ہے کہ دولت سب میں پھیلے، سب میں بٹے، کسی ایک گروہ ہی کی ٹھیکہ داری نہ ہوجائے۔ اور اسی سورت کی آیت (٣٤) میں گزر چکا ہے : (والذین یکنزون الذھب والفضۃ ولا ینفقونھا فی سبیل اللہ، فبشرھم بعذاب الیم) جو لوگ چاندی سونا خزانہ بنا کر رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کے لیے اگر کوئی بشارت ہوسکتی ہے تو یہی کہ عذاب دردناک کی بشارت دے دو اور حدیث بعث معاذ الی الیمن میں زکوۃ کا مقصد یہ فرمایا کہ : (توخذ من اغنیائھم، فترد فی فقرائھم) (رواہ الجماعہ) ان کے دولت مندوں سے وصول کی جائے اور پھر انن کے محتاج افراد میں لوٹائی جائے۔ قرآن اور احتکار و اکتناز : ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ قرآن کی روح دولت کے احتکار و اختصاص کے خلاف ہے۔ یعنی وہ نہیں چاہتا کہ دولت کسی ایک گروہ کی ٹھیکیداری میں آجائے یا سوسائٹی میں کوئی ایسا طبقہ پیدا ہوجائے جو دولت کو خزانہ بنا بنا کر جمع کرے۔ بلکہ وہ چاہتا ہے دولت ہمیشہ سیرو گردش میں رہے اور زیادہ سے زیادہ تمام افراد قوم میں پھیلے اور منقسم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے ورثا کے لئیے تقسیم و اسہام کا قانون نافذ کردیا اور اقوام عالم کے عام قوانین کی طرح یہ نہیں کیا کہ خاندان کے ایک ہی فرد کے قبضہ میں رہے۔ جونہی ایک شخص کی آنکھیں بند ہوئیں اس کی دولت جو اس وقت تک تنہا ایک جگہ میں تھی، اب وارثوں میں بٹ کر کئی جگہوں میں پھیل جائے گی، اور پھر ان میں سے ہر وارث کے وارث ہوں گے، اور اسے بانٹتے اور پھیلاتے رہیں گے۔ اور پھر یہی وجہ ہے کہ اس نے سود کا لین دین حرام کردیا اور قاعدہ ٹھہرا دیا کہ (یمحق اللہ الربوا ویربی الصدقات) اللہ سود کا جذبہ گھٹانا چاہتا ہے، خیرات کا جزبہ بڑھانا چاہتا ہے۔ یعنی یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کے مقابل ہوئیں۔ جس قوم میں سود کا جذبہ ابھرے گا اس کے غالب افراد شقاوت و محرومی میں مبتلا رہیں گے۔ جس قوم میں خیرات کا جذبہ ابھرے گا اس کا کوئی فرد محتاج و مفلس نہیں رہے گا۔ اور اسی لیے اس نے سود کے معاملہ کو اتنی اہمیت دی کہ فرمایا جو لوگ اس پر مصر رہیں گے وہ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف اعلان جنگ کریں گے۔ (فاذنوا بحرب من اللہ ورسولہ) کیونکہ اس معاملہ پر جماعت کی بنیاد فلاح موقوف تھی اور ضروری تھا کہ اسے ایمان و انقیاد کا معیار قرار دیا جاتا۔ اور یہی وجہ ہے کہ سورۃ بقرہ میں انفاق کا حکم دینے کے بعد متصلا فرمایا : (یوتی الحکمۃ من یشاء ومن یوت الحکمۃ فقد اوتی خیرا کثیرا وما یذکر الا اولوا الالباب) یعنی یہ بات کہ اپنی کمائی کا ایک حصہ دوسرے افراد کو دے دینا کھونا نہیں ہے پانا ہے بہت دقیقی بات ہے اسے وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو صاحب حکمت ہیں، اور جس کسی نے حکمت کی دولت پائی تو اس نے بڑی سے بڑی بھلائی پالی۔ (وما یذکر الا اولوا الالباب) (٧) قرآن و سنت کی تعلیمات اور صحابہ کرام کی عملی زندگی کے بعد مجھے اس حقیقت کا پورا اذعان ہوگیا ہے کہ اسلام کے بنائے ہوئے اجتماعی نقشہ میں دولت اور وسائل دولت کے احتکار و اکتناز کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ احتکار یہ کہ دولت کا کسی ایک طبقہ ہی میں محصور ہوجانا۔ اکتناز یہ کہ دولت کے بڑے بڑے خزانوں کا افراد کے پاس جمع ہوجانا، اس نے سوسائٹی کی نوعیت کا جو نقشہ بنایا ہے اگر ٹھیک ٹھیک قائم ہوجائے اور صرف چند خانے ہی نہیں بلکہ تمام خانے اپنی جگہ بن جائیں تو ایک ایسا اجتماعی نظام پیدا ہوجائے گا جس میں نہ تو بڑے بڑے کروڑ پتی ہوں گے نہ مفلس و محتاج طبقے، ایک طرح کی درمیانی حالت غالب افراد پر طاری ہوجائے گی۔ بلاشبہ زیادہ سے زیادہ کمانے والے افراد موجود ہوں گے۔ کیونکہ سعی و کسب کے بغیر کوئی مومن زندہ ہی نہیں رہ سکتا۔ لیکن جو فرد جتنا زیادہ کمائے گا اتنا ہی زیادہ انفاق پرور بھی ہوگا اور اس لیے افراد کی کمائی جتنی بڑھتی جائے گی اتنی ہی زیادہ جماعت بحیثیت جماعت کے خوشحال ہوتی جائے گی۔ قابل اور مستعد افراد زیادہ سے زیادہ کمائیں گے لیکن صرف اپنے ہی لیے نہیں کمائیں گے تمام افراد قوم کے لیے کمائیں گے۔ یہ صورت پیدا نہ ہوسکے گی کہ ایک طبقہ کی کمائی دوسرے طبقوں کے لیے محتاجی و مفلسی کا پیام ہوجائے جیسا کہ اب عام طور پر ہورہا ہے۔ یہ بات کہ قرآن کی تعلیم کے مطابق دنیا میں کس طرح کی مدنیت اور اجتماعیت پیدا ہوسکتی ہے؟ جس درجہ اہم ہے اتنی ہی زیادہ دقیق بھی ہے۔ البیان میں بہ ضمن تفسیر بقرہ اس کی مفصل بحث و تحقیق ملے گی۔ (٨) اگر مسلمان آج اور کچھ نہ کریں صرف زکوۃ کا معاملہ ہی احکام قرآنی کے مطابق درست کرلیں تو بغیر کسی تامل کے دعوی کیا جاسکتا ہے کہ ان کی تمام اجتماعی مشکلات و مصائب کا حل خودبخود پیدا ہوجائے گا۔ (٩) لیکن مصیبت یہ ہے کہ مسلمانوں نے یا تو احکام قرآنی کی تعمیل یک قلم ترک کردی ہے یا پھر عمل بھی کر رہے ہیں تو اس طرح کہ فی الحقیقت عمل نہیں کر رہے ہیں۔ زکوۃ کا نظم شرعی : قرآن نے زکوۃ کا معاملہ ایک خاص نظام سے وابستہ کردیا ہے اور اسی نظام کے قیام پر اس کے تمام مقاصد و مصالح کا حصول موقوف ہے، زکوۃ ایک ٹیکس ہے، بالکل اسی طرح کا ٹیکس جس طرح آج کل انکم ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ پس اس کی ادائیگی کا طریقہ یہ نہ تھا کہ ہر شخص خود ہی اپنا ٹیکس نکالے اور خود ہی خرچ بھی کر ڈالے بلکہ یہ تھا کہ حکومت اپنے کلکٹروں کے ذریعہ ہر شخص سے وصول کر کے بیت المال میں جمع کرے اور پھر ضروریات وقت کے مطابق جس مصرف کو مقدم دیکھے اس میں خرچ کرے۔ جب ایک شخص نے حکومت کے مقررہ عامل کو اپنی زکوۃ دے دی اس کی زکوۃ ادا ہوگئی۔ چنانچہ اسی لیے کلکٹروں اور عاملوں کی تنخواہ کا بار بھی اسی فنڈ پر ڈال دیا اور صاف صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ (والعاملین علیھا) جو کارندے وصولی کے لیے مقرر ہوں ان کے ضروری مصارف، اگر ادائیگی کے لیے یہ بات ضروری نہ ہوتی تو کوئی وجہ نہ تھی کہ مصارف کی مد میں مستقلا عمال حکومت کا ذکر کیا جاتا۔ اور پھر یہی وجہ ہے کہ صاف و صریح لفظوں میں مسلمانوں کا حکم دیا گیا کہ اس باب میں عمال حکومت کی اطاعت کریں اور بلاعذر زکوۃ ان کے حوالہ کردیں۔ حتی کہ اگر عمال ظالم ہوں یا بیت المال کا روپیہ ٹھیک طور پر خرچ نہ ہورہا ہو جب بھی اصلاح حال کی سعی کے ساتھ ادائیگی کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے، یہ نہیں کرنا چاہیے کہ زکوۃ بطور خود خڑچ کر ڈالی جائے۔ بشیر بن خصاصہ کی روایت میں ہے کہ لوگوں نے کہا : (ان قوما من اصحاب الصدقۃ یعتدون علینا) عمال کا ایک گروہ صدقہ لینے میں ہم پر زیادتیاں کرتا ہے۔ کیا اس کا مقابلہ کریں؟ فرمایا نہیں۔ (ابو داؤد) سعد بن ابی وقاص کی روایت میں صاف صاف موجود ہے : (ادفعوا الیھم ماصلوا) جب تک وہ نماز پڑھتے ہیں زکوۃ انہیں دیتے رہو۔ بنو امیہ کے زمانہ میں جب نظام خلافت بدل گیا اور حکام ظلم و تشدد پر اتر آئے تو بعض لوگوں کو خیال ہوا ایسے لوگ ہماری زکوۃ کے کیوں امین سمجھے جائیں؟ لیکن تمام صحابہ نے یہی فیصلہ کیا کہ زکوۃ انہی کو دینی چاہیے۔ یہ کسی نے نہیں کہا کہ خود اپنے ہاتھ سے خرچ کر ڈالو۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے ایک شخص نے پوچھا اب زکوۃ کسے دیں؟ کہا وقت کے حاکموں کو، اس نے کہا : اذا یتخذون بھا ثیابا و طیبا۔ وہ تو زکوۃ کا روپیہ اپنے کپڑوں اور عطروں پر خرچ کر ڈالتے ہیں۔ فرمایا وان اگرچہ ایسا کرتے ہوں مگر انہی کو۔ (ابن ابی شیبہ) کیونکہ زکوۃ کا معاملہ بغیر نظام کے قائم نہیں رہ سکتا۔ صدر اول سے لیکر آخر عہد عباسیہ تک یہ نظام بلا استثنا قائم رہا۔ لیکن ساتویں صدی ہجری میں جب تاتاریوں کا سیلاب تمام اسلامی ممالک میں امنڈ آیا اور نظام خلافت معدوم ہوگیا تو سوال پیدا ہوا کہ اب کیا کرنا چاہیے؟ فقہائے حنفیہ کے جس قدر شروح و متون اور کتب فتاوی آج کل متداول ہیں زیادہ تر اسی دور میں یا اس کے بعد لکھے گئے ہیں۔ اس وقت پہلے پہل اس بات کی تخم ریزی ہوئی کہ زکوۃ کی رقم بطور خود خرچ کر ڈالی جائے کیونکہ غیر مسلم حاکموں کو نہیں دی جاسکتی مگر ساتھ ہی فقہا نے اس پر بھی زور دیا کہ جن ملکوں میں اسلامی حکومت قائم نہیں رہی ہے اور اعادہ حالت فورا ممکن نہیں وہاں مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ کسی اہل مسلمان کو اپنا امیر مقرر کرلیں تاکہ اسلامی زندگی کا نظام قائم رہے۔ معدوم نہ ہوجائے۔ لیکن افسوس ہے کہ بعد کو بتدریج اس نظام کی اہمیت سے مسلمان غافل ہوتے گئے اور رفتہ رفتہ یہ حالت ہوگئی کہ لوگوں نے سمجھ لیا، زکوۃ نکالنے کا معاملہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ خود حساب کر کے ایک رقم نکال لیں اور پھر جس طرح چاہیں خود ہی خرچ کر ڈالیں۔ حالانکہ جس زکوۃ کی ادائیگی کا قرآن نے حکم دیا ہے اس کا قطعا یہ طریقہ نہیں ہے، اور مسلمانوں کی جو جماعت اپنی زکوہ کسی امین کو زکوۃ یا بیت المال کو حوالے کرنے کی جگہ خود ہی خڑچ ڈالتی ہے وہ دیدہ دانستہ حکم شریعت سے انحراف کرتی ہے اور یقینا عنداللہ اس کے لیے جوابدہ ہوگی۔ (١٠) اگر کہا جائے کہ ہندوستان میں اسلامی حکومت موجود نہیں، اس لیے مسلمان مجبور ہوگئے اور انفرادی طور پر خرچ کرنے لگے تو شرعا و عقلا یہ عذر مسموع نہیں ہوسکتا۔ اگر اسلامی حکومت کے فقدان سے جمعہ ترک نہیں کردیا گیا جس کا قیام امام و سلطان کی موجودگی پر موقوف تھا تو زکوۃ کا نظام کیوں ترک کردیا جائے؟ کس نے مسلمانوں کے ہاتھ اس بات سے باندھ دیے تھے کہ اپنے اسلامی معاملات کے لیے ایک امیر منتخب کرلیں یا ایک مرکزی بیت المال پر متفق ہوجائیں یا کم از کم ویسی ہی انجمنیں بنا لیں جیسی انجمنیں بے شمار غیر ضروری باتوں کے لیے بلکہ بعض حالتوں میں بدع و محدثات کے لیے انہوں نے جابجا بنا لی ہیں؟ (١١) اسلام نے اجتماعی زندگی کا ایک پورا نقشہ بنایا تھا، جہاں اس کے چند خانے بگڑے، سمجھ لو پورا نقشہ بگڑ گیا، چنانچہ اس ایک نظام کے فقدان نے مسلمانوں کی پوری اجتماعی زندگی مختل کردی ہے، لوگ اصلاح کے لیے طرح طرح کے ہنگامے بپا کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں انجمنوں اور قومی چندوں کے ذریعہ وقت کی مشکلوں اور مصیبتوں کا علاج ڈھونڈ نکالیں گے حالانکہ مسلمانوں کے لیے اصلی سوال یہ نہیں ہے کہ کوئی نیا طریقہ ڈھونڈ نکالیں، سوال یہ ہے کہ اپنے گم گشتہ طریقہ کا کھوج لگائیں۔ درازی شب و بیداری من ایں ہمہ نیست۔۔۔ زبخت من خبر آرید تا کجا خفتست؟؟ اگر محض دولت مند افراد کے عطیوں اور قومی انجمنوں کے نظام سے قوم کا اقتصادی مسئلہ حل ہوسکتا تو آج یورپ اور امریکہ سے بڑھ کر کون ہے جو ان دونوں باتوں کا انتظام کرسکتا ہے؟ لیکن معلوم ہے کہ ان کا کوئی قومی فنڈ اور کوئی قومی نظام بھی نچلے طبقوں کی بییکاری اور متوسط طبقہ کا افلاس روک نہ سکا اور اب اجتماعی مسئلہ کا ہلاکت آفریں خطرہ ان کے سروں پر منڈلا رہا ہے۔ اصل یہ ہے کہ افراد کی وقتی فیاضیاں کتنی ہی زیادہ ہوں قوم کی اجتماعی زندگی کے قیام کے لیے کبھی کفیل نہیں ہوسکتیں۔ اس صورت حال کا علاج صرف وہی ہے جو اسلام نے تیرہ سو برس پہلے تجویز کیا تھا یعنی قانون سازی کے ذریعہ قوم کی پوری کمائی کا ایک خاص حصہ کمزور افراد کی خبر گیری کے لیے مخصوص کردینا کہ (توخذ من اغنیاھم فترد فی فقرائھم) اور (کی لایکون دولۃ بین الاغنیاء منکم) (١٢) بہرحال یہ بات یاد رہے کہ زکوۃ کی نوعیت عام خیرات کی سی نہیں ہے بلکہ یہ اپنے پورے معنوں میں ایک انکم ٹیکس ہے جو اسلامی حکومت نے ہر کمانے والے فرد پر لگا دیتا تھا۔ بشرطیکہ اس کی کمائی اس کی ذاتی ضروریات زندگی سے زیادہ ہو۔ موجودہ زمانے کے انکم ٹیکسوں میں اور اس میں صرف دو باتوں کا فرق ہے۔ ایک یہ کہ اپنی نوعیت میں یہ زیادہ وسیع ہے۔ یعنی صرف کاروبار کی گھٹتی بڑھتی آمدنی ہی پر عائد نہیں ہوتا، بلکہ اندوختہ پر بھی واجب ہوتا ہے اگرچہ اس سال کوئی نئی آمدنی نہ ہوئی ہو، نیز اس طرح کی تمام ملکتیں بھی اس میں داخل ہیں جو بڑھنے کی استعداد رکھتی ہوں، مثلا مویشی، دوسری یہ کہ مقصد کے لحاظ سے یہ ایک خاص مصرف رکھتا ہے جس کی مختلف صورتیں معین کردی گئی ہیں۔ اسٹیٹ کو حق نہیں کہ ان مصارف کے علاوہ کسی دوسرے مصرف میں خرچ کرے۔ (١٣) قرآن نے یہودیوں کی اس گمراہی کا ذکر کیا ہے انہوں نے احکام شرع کی تعمیل سے بچنے کے لیے شرعی حیلے نکال لیے تھے۔ افسوس ہے کہ مسلمانوں میں بھی اس گمراہی نے سر اٹھایا۔ حتی کہ حیلہ کا معاملہ بعض کتب فقہ کا ایک مستقل باب بن گیا۔ ازاں جملہ ایک حیلہ زکوۃ کے باب میں بھی مشہور ہے۔ طریقہ اس کا یہ بتلایا جاتا ہے کہ جو شخص زکوۃ سے بچنا چاہے وہ کسی آدمی سے بخش دینے اور بخشوا لینے کا فرض معاملہ کرلے اور قبل اس کے کہ برس پورا ہو اپنا تمام مال اس کے نام ہبہ کردے، پھر وہ برس ختم ہونے سے پہلے وہی مال اس کے نام ہبہ کردے گا، نتیجہ یہ نکلے گا کہ دونوں پر سے باوجود مالدار ہونے کے زکوۃ ساقط ہوجائے گی۔ مثلا شوہر نے اپنی بیوی سے رجب کے مہینے میں کہہ دیا میں نے اپنا مال تجھے ہبہ کردیا۔ اس نے کہا قبول، اب شوہر پر زکوۃ نہیں رہی۔ کیونکہ قبل اس کے کہ سال تمام ہو وہ صاحب نصاب نہ رہا۔ البتہ بیوی پر پڑگئی بشرطیکہ بارہ مہینے گزر جائیں، لیکن وہ بارہ مہینے کیوں گزرنے دے گی؟ وہ جمادی الاولی میں شوہر سے کہہ دے گی، میں نے تمام مال اب تمہیں ہبہ کردیا، اسی طرح اس نیک بخت پر سے بھی زکوۃ ساقط ہوجائے گی۔ قصہ کو تہ گشت ورنہ درد سر بسیار بود !!! لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ احکام شرع کی تعمیل میں اس طرح کی حیلہ بازیاں نکالنا فسق و ضلالت کا انتہائی مرتبہ ہے اور جو شخص اس طرح کی مکاریاں کر کے احکام الہی سے بچنا چاہتا ہے اس کی معصیت ان لوگوں سے بدرجہ ہا زیادہ ہے جو سیدھی سادھی طرح ترک اعمال کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ بات کہ ایک شخص سے جرم ہوگیا محض جرم ہے مگر یہ بات کہ ایک شخص جرم کو بے جرمی و پاک عملی بنا کر کرتا ہے صرف جرم ہی نہیں ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے اور صرف اس کی عملی زندگی ہی کو نہیں بلکہ ایمان و فکر کو بھی تاراج کردینے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جونہی اس طرح کے حیلوں کا چرچا پھیلا تمام سلف امت نے اس پر انکار عظیم کیا اور ائمہ و فقہا میں کوئی نہیں جس نے انہیں جائز رکھا ہو۔ (١٤) ایک وار غلط فہمی اس باب میں یہ پھیل گئی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں اپنے مفلس رشتہ داروں کی خبر گیری کا یہی طریقہ ہے کہ زکوۃ کی رقوم سے ان کی مدد کی جائے۔ بلاشبہ ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ غیروں سے پہلے اپنے محتاج رشتہ داروں کی خبر لے اور قرآن نے صدقات و خیرات کے معاملہ میں جو اصلاحات کی ہیں منجملہ ان کے ایک بڑی اصلاح یہ ہے کہ رشتہ داروں کی اعانت کو بھی خیرات قرار دے دیا بلکہ خیرات کا سب سے پہلا اور بہتر مصرف (قل ما انفقتم من خیر فللوالدین والاقربین) لیکن کزوۃ جو خیرات کی ایک خاص قسم ہے اس لیے واجب نہیں کی گئی ہے کہ لوگ خیرات کی دوسری قسموں سے ہاتھ روک لیں اور اپنے محتاج رشتہ داروں کی مدد کا بوجھ بھی اسی پر ڈال دیں۔ زکوۃ وہی دے گا جو صاحب استطاعت ہو اور اگر ایک شخص خوشحال ہے اور اس کے رشتہ دار تنگی و محتاجی میں مبتلا ہوگئے ہیں تو بحیثیت مسلمان ہونے کے اس کا فرض ہے کہ ان کی خبر گیری کرے۔ اگر نہیں کرے گا تو یقینا عنداللہ جواب دہ ہوگا۔ کیونکہ صلہ رحمی کا حق خدا کا ٹھہرایا ہوا حق ہے : (واتقوا اللہ الذی تسائلون بہ والارحام) بلاشبہ اس کی یہ خبر گیری اس کے لیے خیرات کا بہترین عمل ہوگی لیکن خبر گیری ہر حال میں اس کا اسلامی فرض ہے۔ یہ طریقہ کسی حال میں بھی شرعی نہیں ہوسکتا کہ باوجود خوشحال ہونے کے اپنے رشتہ داروں کو فقروفاقہ میں چھوڑ دیا جائے اور پھر اگر کچھ دیا بھی جائے تو اسے زکوۃ کی مد میں شمار کرلیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں نے کوئی خاص اسلامی عمل ہی ترک نہیں کردیا ہے بلکہ ان کی پوری زندگی غیر اسلامی ہوگئی ہے۔ ان کی فکری حالت غیر اسلامی ہے، ان کی عملی رفتار غیر اسلامی ہے ان کا دینی زاویہ نگاہ غیر اسلامی ہوگیا ہے۔ وہ اگر اسلامی احکام پر عمل بھی کرنا چاہتے ہیں تو غیر اسلامی طریقہ سے اور یہ دینی تنزل کی انتہا ہے۔ (فما لھولاء القوم لا یکادون یفقھون حدیثا) (١٥) ایک عام اور سب سے زیادہ مہلک غلط فہمی یہ پھیل گئی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں زکوۃ دے دینے کے بعد انفاق و خیرات کے اور تمام اسلامی فرائض ختم ہوجاتے ہیں۔ جہاں ایک شخص نے رمضان میں اٹھنیوں اور روپیوں کی پڑیاں باندھ کر تقسیم کے لیے رکھ دیں سال بھر کے لیے اسے ہر طرح کے اسنانی و اسلامی تقاضوں سے چھٹی مل گئی۔ حالانکہ ایسا مجھنا یک قلم اسلام کو بھلا دینا ہے۔ اسلام نے مسلمانوں کو جس طرح کی زندگی بسر کرنے کی تلقین کی ہے وہ محض اپنی اور اپنے بیوی بچوں کے پیٹ ہی کی زندگی نہیں ہے بلکہ منزلی، خاندانی، معاشرتی، جماعتی اور انسانی فرائض کی ادائیگی کی ایک پوری آزمائش ہے اور جب تک ایک انسان اس آزمائش میں پورا نہیں اترتا اسلامی زندگی کی لذت اس پر حرام ہے۔ اس پر اس کے نفس کا حق ہے، اس کے والدین کا حق ہے، رشتہ داروں کا حق ہے، بیوی بچوں کا حق ہے، ہمسایہ کا حق ہے اور پھر تمام نوع انسانی کا حق ہے، اس کا فرض ہے کہ اپنی استطاعت اور مقدور کے مطابق یہ تمام فرائض ادا کرے اور انہی فرائض کی ادائیگی پر اس کی زندگی کی ساری دنیوی اور اخروی سعادتیں موقوف ہیں : (واعبدوا اللہ ولا تشرکوا بہ شیئا وبالوالدین احسانا وبذی القربی والیتامی والمساکین والجار ذی القربی والجار الجنب والصاحب بالجنب وابن السبیل وما ملکت ایمانکم) یہ تمام فرائض ادا نہیں کیے جاسکتے جب تک کہ انفاق و خیرات کے لیے انسان کا ہاتھ کشادہ نہ ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اعمال میں سے کسی عمل پر اتنا زور نہیں دیا جس قدر نماز اور انفاق پر، اور منافقوں کی سبسے بڑی پہچان اسی سورت میں یہ بتلائی کہ ان کی مٹھیاں بند رہتی ہیں۔ انفاق کے لیے کھلتی نہیں (و یقبضون ایدیھم) اور اگر کچھ دیتے بھی ہیں تو مجبور ہو کر (ولا ینفقون الا وھم کارھون) اور مومنوں کی نسبت فرمایا (ینفقون اموالھم باللیل والنھار سرا و علانیۃ) مومن وہ ہیں جن کا ہاتھ ہمیشہ کھلا رہتا ہے، رات دن، پوشیدہ اور ظاہر ہر حال میں سرگرم انفاق رہتے ہیں ۔ نیز فرمایا یہ شیطانی خیال ہے کہ خرچ کرنے سے ہم محتاج ہوجائیں گے اور اس راہ میں بخل فحش ہے۔ یعنی سخت قسم کی برائی، اور اللہ انفاق کا حکم دے کر تمہیں مغفرت اور خوشحالی کی راہوں پر لگاتا ہے۔ (الشیطان یعدکم الفقر ویامرکم بالفحشا واللہ یعدکم مغفرۃ منہ و فضلا) پس یہ سمجھنا کہ جہاں سال میں ایک مرتبہ زکوۃ کا ٹیکس دے دیا انفاق فی سبیل اللہ کے تمام مطالبات پورے ہوگئے صریح قرآن کی تعلیم سے اعراض کرنا ہے، زکوۃ تو ایک خاص قسم کا ٹیکس ہے اور ایک خاص مقصد کے لیے لگایا گیا ہے جو سال میں ایک مرتبہ دینا پڑتا ہے لیکن ہماری زندگی کا ہر چوبیس گھنٹہ ہم سے انفاق کا مطالبہ کرتا ہے اور اگر ہم اسلامی زندگی کا توشہ لے کر دنیا سے جانا چاہتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ حسب استطاعت اس کے تمام مطالبات پورے کریں۔ قرآن اور سوشلزم : (١٦) دنیا میں دولت اور وسائل اور دولت کا احتکار اس حد تک پہنچ گیا تھا کہ ضروری تھا اس کا رد فعل پیدا ہو۔ چنانچہ اٹھارویں صدی میں موجودہ سوشلزم کی بنیادیں پڑیں اور اب اس نے کمیونزم کی انتہائی صورت اختیار کرلی ہے اور پندرہ برس سے روس میں اس کا اولین تجربہ بھی ہورہا ہے۔ قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر قرآن کی تعلیم سرمایہ داری کے مفاسد مٹانا چاہتی ہے اور دولت کی تقسیم کی حامی ہے تو کیا ایسا نہیں سمجھا جاسکتا کہ اس کا رخ بھی اسی طرف ہے جس طرف سوشلزم جارہا ہے؟ بلاشبہ سمجھا جاسکتا ہے لیکن ایک خاص درجہ تک اور اس کی حقیقت سمجھ لینی چاہیے۔ دو صورتیں ہیں اور ضروری ہے کہ دونوں کا فرق ملحوظ رکھا جائے : ایک صورت یہ ہے کہ دولت اور وسائل دولت کا احتکار روک دیا جائے اور ہر کمانے والے فرد کو قانون سازی کے ذریعہ مجبور کیا جائے کہ اپنی آمدنی کا ایک حصہ کمزور افراد کے لیے نکالے، نیز اسٹیٹ کو اس بات کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے کہ کوئی فرد ضروریات زندگی سے محروم نہ رہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ اصل بھی تسلیم کی جائے کہ معیشت کے لحاظ سے تمام افراد طبقات کی حالت یکساں نہیں ہوسکتی اور یہ عدم یکسانیت اکثر حالتوں میں قدرتی ہے۔ کیونکہ سب کی جسمانی و دماغی استداد یکساں نہیں اور جب استعداد یکساں نہیں تو ناگزیز ہے کہ جدوجہد معیشت کے ثمرات بھی یکساں نہ ہوں۔ بالفاظ دیگر انفرادی ملکیت کا حق تسلیم کرلیا جائے کہ جو جس قدر حاصل کرسکتا ہے وہ اس کا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ صرف دولت کا احتکار ہی نہ روکا جائے بلکہ دولت کی انفرادی ملکیت بھی ختم کردی جائے اور ایسا نظام قائم کیا جائے جس میں اجباری قوانین کے ذریعہ اقتصادی اور معیشتی مساوات کی حالت پیدا کردی جائے۔ مثلا وسائل دولت تمام تر قومی ملکیت ہوجائیں انفرادی قبضہ باقی نہ رہے اور جسمانی و دماغی استعداد کے اختلاف سے معیشت کا مختلف ہونا بنائے حق تسلیم نہ کیا جائے۔