إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ۖ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ ۚ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ ۚ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ ۚ وَذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
بے شک اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال خرید لیے ہیں، اس کے بدلے کہ یقیناً ان کے لیے جنت ہے، وہ اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں، پس قتل کرتے ہیں اور قتل کیے جاتے ہیں، یہ تورات اور انجیل اور قرآن میں اس کے ذمے پکا وعدہ ہے اور اللہ سے زیادہ اپنا وعدہ پورا کرنے والا کون ہے؟ تو اپنے اس سودے پر خوب خوش ہوجاؤ جو تم نے اس سے کیا ہے اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔
آیت (١١١) میں حب ایمانی کی حقیقت واضح کی ہے۔ فرمایا جو لوگ اللہ پر ایمان لائے تو ایمان کا معاملہ یوں سمجھو کہ انہوں نے اپنا سب کچھ اللہ کے ہاتھ بیچ ڈالا، جان بھی اور مال و متاع بھی۔ اب ان کی کوئی چیز ان کی نہیں رہی، اللہ اور اس کی سچائی کی ہوگئی۔ بندگان تو کہ در عشق خداوند انند۔۔۔۔ دو جہاں را بہ تمنائے تو بفروختہ اند اور پھر اللہ کی طرف سے اس کے معاوضہ میں کیا ہوا؟ یہ ہوا کہ نعیم ابدی کی کامرانیاں انہیں عطا فرمائیں۔ یہ گویا خریدوفروخت کا ایک معاملہ تھا جو اللہ میں اور عشاق حق میں طے پا گیا، اب نہ بیچنے والا اپنی متاع واپس لے سکتا ہے نہ خریدنے والا قیمت لوٹائے گا۔ اثامن بالنفس النفیسۃ ربھا۔۔۔۔۔ فلیس لھا فی الخلق کلھم ثمن اذا ذھبت نفسی بدنیا اصبتھا۔۔۔۔۔ فقد ذھبت منی وقد ذھب الثمن اور چونکہ مقصود اللہ کے لطف و کرم کا اظہار تھا اس لیے معاملہ کو اپنی طرف سے شروع کیا۔ نہ کہ بیچنے والوں کی طرف سے، یعنی یہ نہیں کہا کہ مومنوں نے بیچ ڈالی بلکہ کہا اللہ نے مومنوں سے خرید لی۔ گویا معاملہ کا طالب وہ تھا، حالانکہ ہر طرح کی طلب و احتیاج سے وہ منزہ ہے اور جو متاع اس نے قبول کی وہ بھی اسی کی تھی اور جو کچھ معاوضہ میں بخشا وہ بھی اس کے سوا اور کس کا ہوسکتا ہے؟