قُلْ هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنَا إِلَّا إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ ۖ وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ أَن يُصِيبَكُمُ اللَّهُ بِعَذَابٍ مِّنْ عِندِهِ أَوْ بِأَيْدِينَا ۖ فَتَرَبَّصُوا إِنَّا مَعَكُم مُّتَرَبِّصُونَ
کہہ دے تم ہمارے بارے میں دو بہترین چیزوں میں سے ایک کے سوا کس کا انتظار کرتے ہو اور ہم تمھارے بارے میں انتظار کر رہے ہیں کہ اللہ تمھیں اپنے پاس سے کوئی عذاب پہنچائے، یا ہمارے ہاتھوں سے۔ سو انتظار کرو، بے شک ہم (بھی) تمھارے ساتھ منتظر ہیں۔
آیت (٥٢) کا ٹھیک مطلب سمجھ لو، فرمایا تم ہمارے لیے جس بات کے انتظار میں رہتے ہو وہ یہ ہے کہ ہم جنگ میں مارے جائیں اور شکست ہو لیکن ہماررے لیے تو یہ بھی (احد الحسنیین) ہے۔ یعنی دو خوبیوں میں سے ایک خوبی، اور یہی مقام ہے جسے قرآن ایمان اور ایمان والوں کی خصوصیت قرار دیتا ہے، اور کہتا ہے جو کفر کی راہ چلے، تو انہیں اس کی سمجھ نہیں۔ دنیا میں جب کبھی کوئی فرد یا جماعت کسی مقصد کے لیے جدوجہد کرتی ہے، تو اس کے سامنے امید بھی ہوتی ہے مایوسی بھی، کامیابی بھی ہوتی ہے ناکامیابی بھی، لیکن قرآن کہتا ہے مومن وہ ہے جس کی جدوجہد میں جو کچھ ہے، امید و کامرانی ہی ہے، مایوسی و ناکامی کی اس پر پرچھائیں بھی نہیں پڑ سکتی۔ کیونکہ وہ جو کچھ کرتا ہے اللہ کے لیے کرتا ہے، اور اس کے لیے یہی بات کامیابی نہیں ہوتی کہ کسی خاص منزل تک پہنچ جائے، بلکہ اس کی راہ میں چلتے رہنا اور جدوجہد میں لگے رہنا بجائے خود بڑی سے بڑی کامیابی ہے۔ وہ جب اپنا سفر شروع کرتا ہے تو اس لیے نہیں کرتا کہ کسی خاص منزل تک ضرور ہی پہنچ جائے بلکہ صرف اس لیے کہ کسی کی راہ میں چلتا رہے اور یہ جو کسی کی راہ میں چلتے رہنا ہے تو یہی اس کے لیے منزل مقصود ہے : رہرواں راخستگی راہ نیست۔۔۔۔۔ عشق ہم راہ ست وہم خود منزل است دوسرے اگر جدوجہد کرتے ہوئے مرجائیں تو یہ ان کی ناکامیابی ہے۔ مومن اگر مرجائے تو اس کی بڑی سے بڑی فتح مندی ہے، ایسی فتح مندی جس سے بڑی فتح مندی کی وہ اپنی ذات کے لیے آرزو ہی نہیں کرسکتا۔ آنانکہ غم تو برگزیدند ہمہ۔۔۔۔ در کوئے شہادت آرمیدند ہمہ ! در معرکہ دو کون فتح از عشق است۔۔۔۔ باآنکہ سپاہ اور شہیدند ہمہ ! دوسرے اگر لڑیں اور دشمنوں پر غالب نہ آسکیں تو ان کی ہار ہوئی لیکن مومون وہ ہے جو ہار کے معنی ہی سے نا آشنا ہوتا ہے، وہ اگر کسی میدان میں غالب نہ آئے جب بھی جیت اسی کی ہے کیونکہ اس کی ہار جیت کا معیار میدان جنگ نہیں ہوتا خود اس کی طلب و سعی ہوتی ہے۔ اگر وہ اپنی سعی و طلب میں پورا نکلا تو اس نے میدان مار لیا اگرچہ میدان جنگ میں اس کی لاش ہزاروں لاشوں کے نیچے دبی ہوئی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس راہ میں وہ کبھی مر نہیں سکتا۔ اس کی موت بھی اس کی زندگی ہوتی ہے۔ (ولکن لا تشعرون) یہ جو قرآن نے جابجا زور دیا ہے کہ مومن کا مقصد سعی صرف اللہ اور اس کی سچائی اور مومن کی جہد کا نام جہد فی سبیل اللہ رکھ دیا تو اس میں یہی حقیقت پوشیدہ ہے۔ یعنی وہ ساری منزلوں سے جو دنیا میں پیش آسکتی ہیں بلند کردیا گیا۔ اب یہاں کی کوئی منزل اس کی منزل مقصود نہیں ہوسکتی کہ اس تک نہ پہنچ سکنا اس کی ناکامیابی کا فیصلہ کردے۔ اس کے لیے منزل مقصود تو صرف یہ حق کہ راہ میں چلتا رہے اور رکے نہیں۔ اس کا ہر قدم جو چلتا رہا فتح مندی ہے اور ہر قدم جو رک گیا نامرادی ہے۔ بہرحال یاد رہے کہ دو خوبیوں سے مقصود یہی حقیقت ہے یعنی فتح مندی یا شہادت، اور شہادت بھی فتح مندی ہے۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ شہادت یا مال غنیمت جیسا کہ بعضوں نے خیال کیا۔ اور حاشا کہ مال غنیمت مومن کے لیے (احد الحسنیین) ہو۔ آیت (٨٧) تک مدینہ کے منافقوں کے حالات و خصائل پر مزید روشنی ڈالی ہے اور ان معاملات کی طرف اشارات کیے ہیں جو غزوہ تبوک کی ابتدا میں اور پھر سفر کے درمیان اور واپسی پر پیش آئے۔ اور بالآخر ان لوگوں کے لیے آخری احکام صادر کیے ہیں َ ان تمام آیات کے لیے سورت کا آخری نوٹ دیکھو کیونکہ بغیر یک جائی نظر ڈالے تمام پہلو واضح نہیں ہوسکتے تھے۔