وَمِنْهُم مَّن يَقُولُ ائْذَن لِّي وَلَا تَفْتِنِّي ۚ أَلَا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا ۗ وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ
اور ان میں سے بعض وہ ہے جو کہتا ہے مجھے اجازت دے دے اور مجھے فتنے میں نہ ڈال۔ سن لو! وہ فتنے ہی میں تو پڑے ہوئے ہیں اور بے شک جہنم کافروں کو ضرور گھیرنے والی ہے۔
چنانچہ آیت (٤٩) میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ فرمایا بعض منافق کہتے ہیں اس سفر میں نکلنا فتنوں میں پڑنا، ہے پس ہمیں فتنہ نہ ڈالیے، مدینہ ہی میں بیٹھے رہنے دیجیے۔ اس فتنہ سے ان کا مقصود کیا تھا؟ اسے اس لیے بیان نہیں کیا کہ صریحی قرائن واضح کر رہے ہیں اور یہی قرآن کی معجزانہ بلاغت ہے، وہ یقینا ہر طرح کے متوقع اور وہمی خطرات ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالتے ہوں گے، اور اسے فتنہ سے تعبیر کرتے ہوں گے۔ مثلا اس موسم میں ہزاروں آدمیوں کو اس قدر دور کے سفر پر لے جانا جان بوجھ کر انہیں ہلاک کرنا ہے، اور یہ نیکی کا کام نہیں۔ پھر جہاں جانا وہ دوسروں کا ملک ہے، نہیں معلوم کن کن برائیوں میں پڑنا پڑے؟ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب پیغمبر اسلام نے تبوک کا ارادہ کیا تو منافقوں کے ایک سردار جد بن قیس نے کہا عورتوں کے معاملہ میں میں بہت کمزور ہوں۔ مجھے ڈر ہے کہیں بنو اصفر کی عورتیں دیکھ کر مفتون نہ ہوجاؤں۔ پس مجھے رہ جانے کی اجازت دے دیجیے، اور اس فتنہ میں نہ ڈالیے۔ (ابن جریر، بنو اصفر یعنی رومی) اس سے معلوم ہوا جو باتیں کہی گئی ہوں گی وہ اسی قسم کی ہوں گی۔ فرمایا یہ جھوٹے بہانے نکالنے کے لیے جھوٹے فتنہ کا ذکر کرتے ہیں، حالانکہ یہ کہہ کر اصلی فتنہ میں گر پڑے کہ راہ حق میں جہاد کرنے سے جی چرایا، اور اس کے لیے جھوٹی نیکی و پرہیزگاری کی آڑ پکڑی۔ غور کرو گے تو نفاق کی یہ خصلت آج بڑے بڑے مدعیان علم و مشیخت میں بولتی نظر آئے گی۔ جھوٹی دینداری اور وہمی پرہیزگاری نے سعی و عزم کی تمام راہیں ان پر بند کردی ہیں، اور وہ ساعی ہیں کہ امت پر بھی بند کردیں۔ ١٩١٤ ء کی بات ہے کہ مجھے خیال ہوا، ہندوستان کے علماء و مشائخ کو عزائم و مقاصد وقت پر توجہ دلاؤں۔ ممکن ہے چند اصحاب رشد و عمل نکل آئیں۔ چنانچہ میں نے اس کی کوشش کی، لیکن ایک تنہا شخصیت کو مستثنی کردینے کے بعد سب کا متفقہ جواب یہی تھا کہ یہ دعوت ایک فتنہ ہے۔ ائذن لی ولا تفتنی یہ مستثنی مولانا محمود حسن دیوبندی کی تھی، جواب رحمت الہی کے جوار میں پہنچ چکے ہیں۔ تم نے بعض علما کے فتوے پڑھے ہوں گے کہ مسلمانوں کو وقت کی سیاسی مجالس میں شریک نہ ہونا چاہیے، کیونکہ اس میں غیر مسلم عورتیں کھلے منہ موجود ہوتی ہیں، اور اس لیے ان کی شرکت فتنہ سے خالی نہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ ان کی شرکت سے نماز باجماعت فوت ہوجاتی ہے، اور یہ تقوی کے خلاف ہے۔ یاد رکھو یہ تقوی اور دینداری نہیں ہے جو ان کاموں کی مخالفت پر انہیں ابھارتی ہے۔ یہ مرض نفاق کی قسموں میں سے ایک قسم ہے، اور قرآن کی شہادت اس کے لیے بس کرتی ہے۔