سورة التوبہ - آیت 47

لَوْ خَرَجُوا فِيكُم مَّا زَادُوكُمْ إِلَّا خَبَالًا وَلَأَوْضَعُوا خِلَالَكُمْ يَبْغُونَكُمُ الْفِتْنَةَ وَفِيكُمْ سَمَّاعُونَ لَهُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اگر وہ تم میں نکلتے تو خرابی کے سوا تم میں کسی چیز کا اضافہ نہ کرتے اور ضرور تمھارے درمیان (گھوڑے) دوڑاتے، اس حال میں کہ تم میں فتنہ تلاش کرتے، اور تم میں کچھ ان کی باتیں کان لگا کر سننے والے ہیں اور اللہ ان ظالموں کو خوب جاننے والا ہے۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

آیت (٤٧) میں فرمایا یہ سمجھے، پیچھے رہ کر مصیبت سے بچے اور واقعہ یہ ہے کہ ان کا نہ نکلنا ہی تمہارے لیے بہتر ہوا۔ کیونکہ نکلتے تو فتنوں کے گھوڑے دوڑاتے اور کچے دل کے آدمیوں کو بہکارتے رہتے، اس سے پہلی آیت میں فرمایا مگر اللہ کے حضور ان کا اٹھنا ناپسند ہوا۔ یعنی اللہ کے علم میں تھا کہ اب وہ نہیں نکلیں گے اور اللہ نے تمہارے لیے اسی میں بہتری دیکھی کہ نہ نکلیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جماعتی زندگی کے لیے مذبذب اور کچے دل کے آدمیوں کی موجودگی ایک بڑا مہلکہ ہے خصوصا جبکہ قوم موت و حیات کی جدوجہد میں مشغول ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آزاد سے آزاد قومیں بھی مجبور ہوئیں کہ جنگ کے وقت حکومت کو غیر معمولی اختیارات دے دیں، اور اگر شخصی آزادی کے قوانین بھی معطل کردے تو معترض نہ ہوں، کیونکہ اس وقت ایک منافق کی شرارت پوری قوم کو خطرہ میں ڈال سکتی ہے۔ ان آیات کی موعظت یہ ہے کہ حتی الامکان ایسے افراد کی موجودگی برداشت نہیں کرنی چاہیے اور ایسا خیال نہیں کرنا چاہیے کہ ان کی علیحدگی سے جو راضی شور و شغب ہوگا وہ جماعتی مصالح کے لیے زیادہ مضر ہوگا۔ اگر درخت کی جڑ درست ہے تو جتنا چھانٹو گے اتنا ہی زیادہ پھلتا جائے گا اور فاسد اعضا کا الگ کردینا مضر نہیں ہوتا، چھوڑ دینا جسم کے لیے مہلک ہوتا ہے۔ جب انسان میں سچائی باقی نہیں رہتی تو نیکی و پرہیزگاری کے خیال کو خود نیکی و پرہیزگاری ہی کے خلاف استعمال کرنے لگتا ہے اور اس سے حیلے بہانے کا کام نکلتا ہے، اور یہ نفاق کا سب سے زیادہ پر فریب حربہ ہے، بہت سے سادہ لوح دیندار اس کے دھوکے میں آجاتے ہیں۔