لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا وَسَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوكَ وَلَٰكِن بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ ۚ وَسَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ يُهْلِكُونَ أَنفُسَهُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ
اگر نزدیک سامان اور درمیانہ سفر ہوتا تو وہ ضرور تیرے پیچھے جاتے، لیکن ان پر فاصلہ دور پڑگیا اور عنقریب وہ اللہ کی قسم کھائیں گے کہ اگر ہم طاقت رکھتے تو تمھارے ساتھ ضرور نکلتے۔ وہ اپنے آپ کو ہلاک کر رہے ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ بے شک وہ ضرور جھوٹے ہیں۔
اب آیت (٤٢) سے سلسلہ بیان منافقوں کی طرف متوجہ ہوا ہے جن کے لیے غزوہ تبوک کا معاملہ ایک آخری اور فیصلہ کن آزمائش ثابت ہوا تھا، اس نے تظاہر و نمائش کے تمام پردے چاک کردیے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام اس سورت کو الفاضحہ کے نام سے بھی پکارتے تھے، کیونکہ اس نے منافقوں کے بھید کھول کر ان کی فضیحت کردی۔ منافقوں کی نسبت سورۃ آل عمران کی آیت (١٧٣) میں پڑھ چکے ہو کہ اللہ انہیں مومنوں سے ممتاز کر کے آشکارا کردے گا۔ چنانچہ یکے بعد دیگرے ایسے مرحلے پیش آتے رہے جن میں نفاق کے چہروں کو بے نقاب ہونا پڑا۔ اس سلسلہ کا آخری مرحلہ غزوہ تبوک تھا۔ پڑھ چکے ہو کہ اس موقع پر ناموافق حالات سے عام مسلمانوں کی سرگرمیاں بھی ابتدا میں کچھ دھیمی رہی تھیں لیکن منافقوں کی حالت بالکل دوسری تھی۔ یہ حکم ان کے لیے پیام موت سے بھی زیادہ سخت ہوا۔ لگے حیلے بہانے کرنے، ہر شخص ایک نیا بہانہ گھڑ کر لاتا اور کہتا ویسے تو مجھے چلنے میں کوئی عذر نہیں مگر مشکل یہ ہے کہ فلاں کام ناگریز ہوگیا ہے، فلاں بات ناقابل حل ہورہی ہے۔ فلاں الجھاؤ سلجھایا نہیں جاسکتا۔ اب جیسا آپ کا حکم ہو، مقصود یہ تھا کہ جھوٹی سچی مجبوریاں سنائیں گے تو پیغمبر اسلام کا اخلاق ایسا نہیں ہے کہ کسی کو مجبور کر کے لے جانا چاہیں، ان کی رحمت و رافت ہمیشہ رسی ڈھیلی چھوڑ دیتی ہے، وہ یہی کہیں گے کہ مجبور ہو تو نہ چلو۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ پیغمبر اسلام ان کے حیلے بہانے سنتے اور یہ دیکھ کر کہ بخوشی چلنے کے لیے تیار نہیں کہہ دیتے اچھا تمہیں رخصت ہے، ان میں سے بعضوں نے بات بنانے کے لیے یہ بھی کہا کہ مال حاضر ہے لے لیجیے، مگر نکلنا دشوار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں انہی واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے، فرمایا اگر وکئی ایسی بات ہوتی کہ فوری فائدہ دکھائی دیتا اور سفر بھی دور کا نہ ہوتا تو ان کے نفاق کو چھپنے کی آر مل جاتی جیسی بار بار مل چکی ہے۔ یہ فورا تیرے پیچھے قدم اٹھا دیتے ظاہر میں حکم کی تعمیل کرتے دل میں دنیا کی طمع اور مکر و عذر کی چالیں ہوتیں۔ چنانچہ احد وغیرہ میں ایسا ہی کیا تھا۔ مگر انہیں مشکل یہ آپڑی کہ معاملہ نکل آیا عرب سے باہر دور دراز کا اور سفر کی مشقتیں ہوئیں بڑی ہی سخت۔ نہ تو دنیا کے نفع قریب کی توقع نہ قرب مقام کی سہولت کا سہارا۔ پس بے بس ہو کر رہ گئے اور دکھاوے کے لیے ساتھ نہ نکل سکے۔ اللہ کی طرف سے یہی فیصلہ کن آزمائش تھی جس نے سارا بھانڈا پھوڑ کر رکھ دیا اور جب کبھی راہ حق میں کوئی سخت آزمائش آجاتی ہے تو منافقوں کے چہرے اسی طرح بے نقاب ہوجایا کرتے ہیں۔