إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا ۖ فَأَنزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَىٰ ۗ وَكَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اگر تم اس کی مدد نہ کرو تو بلاشبہ اللہ نے اس کی مدد کی، جب اسے ان لوگوں نے نکال دیا جنھوں نے کفر کیا، جب کہ وہ دو میں دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا غم نہ کر، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ تو اللہ نے اپنی سکینت اس پر اتار دی اور اسے ان لشکروں کے ساتھ قوت دی جو تم نے نہیں دیکھے اور ان لوگوں کی بات نیچی کردی جنھوں نے کفر کیا اور اللہ کی بات ہی سب سے اونچی ہے اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔
آیت (٤٠) میں واقعہ ہجرت کی طرف اشارہ کیا ہے جس کا ذکر سورۃ انفال میں بھی گزر چکا ہے۔ (دیکھو آیت ٣٠) جب مکہ میں اعدائے حق نے فیصلہ کرلیا کہ تمام قبائل کے لوگ ملکر بیک وقت پیغمبر اسلام پر حملہ کردیں تو آپ کو ہجرت کا حکم ہوا۔ آپ حضرت ابوبکر کو ساتھ لے کر ثور کے غار میں پوشیدہ ہوگئے جو مکہ سے تقریبا چھ میل کے فاسلہ پر ایک پہاڑ ہے۔ یہاں آپ نے تین راتیں بسر کیں اور پھر مدینہ روانہ ہوگئے۔ دشمن جو آپ کی تلاش میں تھے وہ یہاں بھی پہنچے لیکن اللہ نے آپ کی حفاظت کا ایسا سامان پیدا کردیا تھا کہ بغیر دیکھے بھالے واپس چلے گئے۔ یہ تین راتیں حضرت ابوبکر نے کہ شمع نبوت کے پروانہ تھے جس عالم میں بسر کی ہوں گی اس کا اندازہ وہی کرسکتا ہے جس نے عشق و محبت کا کچھ بھی ذائقہ چکھا ہو۔ اللہ کا رسول غار میں پوشیدہ تھا، دشمن سراغ میں تھے، ہر لمحہ اندیشہ تھا کہ کہیں سراغ نہ پالیں، اور ایک مرتبہ ان کی صدائیں بھی کانوں میں آنے لگی تھیں۔ ایسی حالت میں ظاہر ہے کہ ان کے دل کے حزن و اضطراب کا کیا عالم ہوگا؟ بلاشبہ انہیں یقین تھا کہ اللہ اپنے رسول کا مددگار ہے۔ لیکن عشق و محبت کا قدرتی تقاضا ہے کہ محبوب کو خطرہ میں دیکھ کر اضطراب ہو، اس سے وہ اپنے دل کو نہیں روک سکتے تھے، اگر روک سکتے تو محبت کی عدالت کا فیسلہ ان کے خلاف ہوتا، لیکن پیغمبر اسلام کے سکون قلب کا عالم دوسرا تھا۔ ان کا رفیق غار جب جوش محبت میں مضطرب ہوتا تو تسلی دیتے اور فرماتے غمگین نہ ہو اللہ ہمارے ساتھ ہے، خود حضرت ابوبکر کا بیان ہے کہ جب دشمن غار کے قریب آئے تو میں نے مضطرب ہو کر کہا ان میں سے کسی نے پاؤں اونچا کیا تو ہمیں دیکھ لے گا۔ آنحضرت صلی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ابوبکر ! تم ان دو آدمیوں کے لیے کیا خیال کرتے ہو جن کے لیے تیسرا خود اللہ ہے؟ (شیخین عن انس) یہاں فرمایا اللہ نے اپنی جانب سے اس پر سکون و قرار اتارا یعنی ابوبکر پر کیونکہ پیغمبر اسلام کا قلب مبارک تو پہلے ہی سے ساکن و برقرار تھا۔