سورة التوبہ - آیت 28

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَٰذَا ۚ وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ إِن شَاءَ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بات یہی ہے کہ مشرک لوگ ناپاک ہیں، پس وہ اپنے اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب نہ آئیں اور اگر تم کسی قسم کے فقر سے ڈرتے ہو تو اللہ جلد ہی تمھیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا، اگر اس نے چاہا۔ بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

آیت (٢٨) میں اسی حکم کا ذکر ہے جو اوپر گزر چکا ہے۔ یعنی آئندہ سے کوئی مشرک اس عبادت گاہ میں جو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے خدائے واحد کی پرستش کے لیے بنائی تھی داخل نہ ہوسکے گا اور یہ مقام امت مسلمہ کے لیے مرکز ہدایت بن کر رہے گا جیسا کہ فی الحقیقت اسے ہونا تھا۔ اس آیت میں مشرکوں کے نجس ہونے سے مقصود ان کی قلبی نجاست ہے نہ کہ جسمانی، کیونکہ اسلام کسی انسان کے جسم کو ناپاک نہیں قرار دیتا اور ہر انسان کو انسان ہونے کے لحاظ سے ایک درجہ پر رکھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسلام نے چھوت چھات کی ہر قسم اور ہر شکل کو ناجائز قرار دیا ہے۔ خود پیغمبر اسلام کا یہودیوں اور مشرکوں سے ہر طرح کی معاشرت رکھنا، ایک ساتھ کھانا پینا، ان کی دعوتوں میں جانا اور انہیں دعوتوں میں بلانا حتی کہ انہیں مسجد کے اندر ٹھہرانا ثابت ہے۔ بالاتفاق یہ حکم صرف خانہ کعبہ سے تعلق رکھتا ہے۔ عام مساجد میں غیر مسلموں کے لیے کوئی شرعی روک نہیں۔ چنانچہ پیغمبر اسلام نے یمن کے عیسائیوں اور طائف کے مشرکوں کو اپنی مسجد میں ٹھہرایا تھا۔