فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
پس جب حرمت والے مہینے نکل جائیں تو ان مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو اور انھیں پکڑو اور انھیں گھیرو اور ان کے لیے ہر گھات کی جگہ بیٹھو، پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ بے شک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
آیت (٥) سے یہ بات قطعی طور پر واضح ہوگئی کہ جس بات کے بعد ایک جماعت مسلمانوں کی جماعت تسلیم کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ زبان سے اسلام کا قرار کرے اور عمل میں دو باتیں ضرور آجائیں۔ نماز کی جماعت کا قیام اور زکوۃ کی ادائیگی اگر یہ دو عملی باتیں ایک جماعت میں مفقود ہیں تو اس کا شمار مسلمانوں میں نہ وگا۔ اس اعتبار سے ایک فرد کی حالت میں اور ایک جماعت کی حالت میں جو فرق ہے اسے نظر انداز نہیں کرنا چہایے۔ اگر ایک فرد قیام صلوۃ اور ادائے زکوۃ میں کوتاہی کرتا ہے تو گنہگار ہے۔ لیکن اگر ایک جماعت نے بہ حیثیت جماعت کے ترک کردیا تو اسلامی زندگی کی بنیادی شناخت کھو دی اور وہ مسلمان نہیں۔ ان چند لفظوں میں تمہیں اس تمام نزاع کا فیصلہ مل جاسکتا ہے جو تارک صلوۃ کے باب میں چلی آتی ہے بشرطیکہ غوروفکر سے کام لو۔ غور کرو جنگ کی سخت سے سخت حالت میں بھی اصل مقصد یعنی ارشاد و موعظت کا دروازہ کس طرح کھلا رکھا؟ اور کس طرح دین و اعتقاد کے معاملہ کو جبر و اکراہ کے شبہ سے بالا تر رکھا گیا؟ آیت (٦) میں فرمایا ان مشرکوں میں ایسے لوگ بھی ہوسکتے جن میں قرآن سننے اور حقیقت حال معلوم کرنے کی خلش پیدا ہو، اگر کوئی ایسا آدمی آجائے تو عین لڑائی کی حالت میں بھی اسے بخوشی پناہ دو۔ جب تک رہنا چاہے رہیے، قرآن سنے اور جب جانا چاہے تو اسے اس کے ٹھکانے بحفاظت پہنچا دیا جائے تاکہ اپنے امن کی جگہ پہنچ کر آزادی و اختیار کے ساتھ غور و فکر اور جو راہ چاہے اختیار کرے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ دین کے بارے میں تقلید کافی نہیں۔ فہم و اذعان ضروری ہے ورنہ قرآن کا سنانا اور پھر غور وفکر کی مہلت دینا ضروری نہ ہوتا، یاد رہے قرآن جس طرح اس معاملہ میں جبر کی پرچھائیں بھی دیکھنا نہیں چاہتا اسی طرح تقلیدی اعتقاد کا بھی روادار نہیں۔