وَإِن جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
اور اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں تو تو بھی اس کی طرف مائل ہوجا اور اللہ پر بھروسا کر۔ بے شک وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
آیت (٦١) اور (٦٢) نے کیسے قطعی لفظوں میں قرآن کی دعوت امن کا اعلان کردیا؟ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جبکہ جنگ بدر کے فیصلہ نے مسلمانوں کی فتح مندی آشکارا کردی تھی اور تمام جزیرہ عرب ان کی طاقت سے متاثر ہونے لگا تھا، تاہم حکم ہوا جب کبھی دشمن صلح و امن کی طرف جھکے، چاہیے کہ بلاتامل تم بھی جھک جاؤ، اگر اس کی نیت میں فتور ہوگا تو ہوا کرے اس کی وجہ سے صلح و امن کے قیام میں ایک لمحہ کے لیے بھی دیر نہیں کرنی چاہیے۔ دنیا میں کوئی کام انسان کے لیے اس سے زیادہ مشکل نہیں ہے کہ بکھرے ہوئے انسانی دلوں کو ایک رشتہ الفت میں پرو دے، اور یہ کام تقریبا ناممکن ہوجاتا ہے جب معاملہ ایسے انسانوں کا ہو جو صدیوں سے باہمی جنگ و جدال کی آب و ہوا میں پرورش پاتے رہے ہوں اور جن کے نفسیاتی سانچوں میں باہمی آمیزش وائتلاف کا کوئی ڈھنگ باقی نہ رہا ہو۔ پیغمبر اسلام کا ظہور ایسے ہی لوگوں میں ہوا تھا، مگر ابھی ان کی دعوت پر دس بارہ ہی برس گزرے تھے کہ مدینہ میں ایک ایسا گروہ پیدا ہوگیا جو اس اعتبار سے بالکل ایک نئی قسم کی مخلوق تھی۔ وہ جب تک مسلمان نہیں ہوئے تھے باہمی کینہ و انتقام کے مجسمے تھے لیکن جونہی مسلمان ہوئے محبت و سازگاری کی ایسی پاکی و قد وسیت ابھر آئی کہ ان کا ہر فرد دوسرے کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کردینے کے لیے مستعد ہوگیا۔ فی الحقیقت یہی وہ تزکیہ اخلاق کا عمل ہے جو ایک پیغمبرانہ عمل تھا اور جو پیغمبر اسلام کی تعلیم و تربیت نے انجام دیا اور اسی کی طرف آیت (٦٣) میں اشارہ فرمایا ہے۔ اس سے معلوم ہوا مسلمانوں کی باہم الفت ایک ایسی نعمت ہے جسے خدا نے اپنا خاص انعام قرار دیا ہے۔ افسوس ان پر جو اس نعمت سے محرومی پر قانع ہوگئے اور اس کے لیے اپنے اندر کوئی جلن محسوس نہیں کی۔ آج باہمی الفت کی جگہ باہمی مخاصمت مسلمانوں کی سب سے بڑی پہچان ہوگئی ہے، اسی کو انقلاب حال کہتے ہیں۔