يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ اور رسول کی خیانت نہ کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو، جبکہ تم جانتے ہو۔
آیت (٢٧) میں خیانت سے مقصود وہ تمام خیانتیں ہیں جو اسلام کے احکام کی تعمیل و تبلیغ اور امت کے مصالح و مقاصد میں کی جائیں، لیکن خصوصیت کے ساتھ جس بات کی طرف اشارہ کیا وہ یہ تھی کہ اہل مکہ کے ساتھ نامہ و پیام نہ رکھو جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کردیا ہے اگرچہ یہ نام و پیام اپنے بچوں کی حفاظت کے خیال ہی سے کیوں نہ ہو۔ بعض مہاجرین نے اپنے اہل و عیال کو جو مکہ میں تھے خطوط لکھے تھے، اس میں کچھ اشارہ جنگ کی نسبت بھی آگیا تھا، فرمایا یہ اللہ کی، رسول اللہ کی، اور مسلمانوں کی خیانت ہے۔ اگر صرف اتنی سی بات اللہ اور رسول اللہ کی خیانت تھی تو غور کرو ان مسلمانوں کے لیے کیا حکم ہونا چاہیے جو اپنی ساری زندگیاں اعدائے ملت کی سیاسی خدمت میں صرف کر ڈالتے ہیں اور جو ڈیڑھ سو برس سے بے شمار اسلامی حکومتوں کے زوال و انقراض کا باعث ہوئے ہیں؟