إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ
بے شک تمام جانوروں سے برے اللہ کے نزدیک وہ بہرے، گونگے ہیں، جو سمجھتے نہیں۔
آیت (٢٢) سے جلد نہ گزر جاؤ، یہ وہی بات ہے جو قرآن کے ہر صفحہ اور ہر بیان میں بار بار نمایاں ہوئی ہے۔ یعنی اس کی دعوت سراسر تعقل و تفکر کی دعوت ہے، جو انسان اپنے حواس و عقل سے کام نہیں لیتا وہ اس کے نزدیک انسان نہیں بدترین چارپایہ ہے۔ نیز وہ فکروعمل کی جس حالت کو کفر کی حالت قرار دیتا ہے اس کا سرچشمہ یہی عقل و حواس کا تعطل ہے۔ آیت (٢٢) میں فرمایا پیغمبر اسلام کی دعوت اس لیے ہے کہ تمہیں زندہ کردے یعنی وہ انسانیت اعلی کے انبعاث و قیام کی دعوت ہے۔ غور کرو اس دعوت نے وقت کی تمام مردہ جماعتوں کو کس طرح قبروں سے اٹھ کر زندگی کے میدانوں میں متحرک کردیا تھا؟ اس سے بڑھ کر مردوں کو جلانا اور کیا ہوگا کہ عرب کے ساربانوں میں ابوبکر، عمر، علی، عائشہ، خالد، ابن ابی وقاص، ابن العاس جیسے اکابر عالم پیدا ہوگئے اور پچاس برس کے اندر کرہ ارضی کی سب سے بڑی مہذب و اشرف قوم عرب کے وحشی تھے۔ پھر فرمایا یہ بات نہ بھولو کہ انسان کے افکار و افعال میں حکمت الہی کا ایک خاص قانون کام کر رہا ہے، بسا اوقات اس کے ارادوں اور اس کے دل کے جذبوں اور انفعالوں کے درمیان اچانک کوئی غیر متوقع بات آکر حائل ہوجاتی ہے، اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اچانک اچھائی سے برائی میں جا پڑتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ برائی سے بھلائی میں آنکلتا ہے۔ چنانچہ کتنے ہی اچھے ارادے ہیں جن سے عین وقت پر ہمارے دل نے انکار کردیا اور کتنے ہی برائی کے منصوبے ہیں جن سے اچانک ہمارے دل نے بغاوت کردی۔ پس چاہیے کہ انسان اپنے دل کی نگرانی سے کبھی غافل نہ ہو۔ نیز کہا یہ بھی نہ بھولو کہ خدا کے حضور لوٹنا ہے، کیونکہ جس دل میں آخرت کا یقین ہوگا وہ زندگی کی غفلتوں سے کبھی مغلوب نہیں ہوسکتا۔ پھچلی آیات میں انفرادی زندگی کے خطرات سے متنبہ کیا تھا۔ اب (٢٥) میں اجتماعی خطرات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان فتنوں سے بچو جنہیں سوسائٹی کا کوئی فرد یا ایک جماعت برپا کردیتی ہے لیکن جب ان کی آگ بھڑک اٹھتی ہے تو صرف انہی کو نہیں جلاتی جنہوں نے سلگائی تھی سبھی لپیٹ میں آجاتے ہیں اور اس لیے آجاتے ہیں کہ کیوں آگ لگانے والے کا ہاتھ نہیں پکڑا؟ کیوں بروقت بجھانے کی کوشش نہیں کی؟