يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ ۖ قُلِ الْأَنفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ ۖ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
وہ تجھ سے غنیمتوں کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دے غنیمتیں اللہ اور رسول کے لیے ہیں، سو اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس کے تعلقات درست کرو اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو، اگر تم مومن ہو۔
(١) مکہ میں جب پیغمبر اسلام کی دعوت کا ظہور ہوا تو قدرتی طور پر دو گروہ پیدا ہوگئے، ایک ان لوگوں کا تھا جنہوں نے یہ دعوت قبول کی، دوسرا تمام قوم اور اس کے سرداروں کا جو اس کے مخالف تھے، غور کرو دونوں میں بنائے نزاع کیا تھی؟ پیروان دعوت کہتے تھے انہیں حق ہے کہ جس بات کو درست سمجھیں اختیار کریں، مخالف کہتے تھے کہ انہیں یہ حق حاصل نہیں، یعنی وہ انسان کے اعتقاد و ضمیر کی آزاد تسلیم نہیں کرتے تھے، وہ چاہتے تھے بزور شمشیر مسلمانوں کو ان کے اعتقاد سے پھرا دیں۔ پیغمبر اسلام نے تیرہ برس تک ہر طرح کے مظالم برداشت کیے، آخر جب مکہ میں زندہ رہنا دشوار ہوگیا تو مدینہ چلے آئے، لیکن قریش مکہ نے یہاں بھی چین سے بیٹھنے نہ دیا، پے درپے حملے شروع کردیے۔ اب پیغمبر اسلام کے سامنے تین راہیں تھیں : (الف) جس بات کو حق سمجھتے ہیں اس سے دست بردار ہوجائیں۔ (ب) اس پر قائم رہیں مگر مسلمانوں کو قتل ہونے دیں۔ (ج) ظلم و تشدد و کا مردانہ وار مقابلہ کریں اور نتیجہ خدا کے ہاتھ چھوڑ دیں۔ انہوں نے تیسری راہ اختیار کی اور نتیجہ وہی نکلا جو ہمیشہ نکل چکا ہے یعنی حق فتح مند ہوا اور ظالموں کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوگیا۔ قرآن نے جس لڑائی کو جائز رکھا اس کی اصلیت اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ چونکہ لڑائی کی حالت پیش آگئی تھی اس لیے اس کے ضروری احکام بیان کردیئے گئے۔ اس سورت میں اور اس کے بعد کی سورت میں تذکیر و موعظت کا مرکز یہی حالت ہے۔ مال غنیمت جو لڑائی میں ہاتھ آئے وہ اللہ اور اس کے رسول کا ہے یعنی یہ بات نہیں ہونی چاہیے کہ جو جس کے ہاتھ پڑگیا وہ اسی کا ہوگیا بلکہ سب کچھ امام کے سامنے پیش کرنا چاہیے، وہ اسے جماعت میں تقسیم کرے گا۔ امن کی حالت ہو یا لڑائی کی لیکن مسلمانوں کو باہم دگر صلح و صفائی کے ساتھ رہنا چاہیے۔ ہر حال میں تقوی اور اطاعت ان کا نصب العین ہو کہ بغیر اس کے کامیابی ممکن نہیں۔ سچا مومن وہ ہے جس کی روح خدا پرستی سے معمور رہتی ہے جس کا ایمان گھٹنے کی جگہ برابر بڑھتا رہتا ہے، جو نماز قائم رکھتا اور خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے کبھی نہیں تھکتا۔ یہ آیت اس باب میں قاطع ہے کہ قرآن کے نزدیک ایمان کی ہر حالت یکساں نہیں، وہ گھٹتا بھی ہے اور بڑھتا بھی ہے، نفس تصدیق کے لحاظ سے سب برابر ہیں کیفیت و یقین میں تفاوت ہے۔ عرب جاہلیت میں دستور تھا کہ لڑائی میں جو مال جس کے ہاتھ لگ جائے وہ اسی کا سمجھا جاتا تھا، رومیوں میں بھی ایسا ہی دستور تھا اور آج کل بھی یورپ کی تمام قوموں میں ایسا ہی قانون رائج ہے۔ جس شہر یا قلعہ کو فوج حملہ کر کے فتح کرلیتی ہے ایک خاص وقت تک اسے لوٹنے کا حق ہوتا ہے۔ چنانچہ ہندوستان میں انگریزی فوج نے سر نیگا پٹم، بھرت پور اور حیدر آباد سندھ کو بے دریغ لوٹا اور غدر ١٨٥٧ ء میں جب دہلی فتح ہوئی تو سات دن تک فوجیوں کو لوٹ مار کی اجازت دے دی گئی تھی۔ لیکن قرآن نے یہ حکم دے کر کہ مال غنیمت جو کچھ بھی ہاتھ آئے حکومت (یعنی اسٹیٹ) کا ہے نہ کہ لوٹنے والوں کا، سپاہیوں کی ذاتی طمع و حرص کے ابھرنے کی راہ روک دی۔ چونکہ یہ نئی قسم کی سختی تھی اس لیے ناگزیر تھ کہ لوگوں پر شاق گزرے، پس پہلے تقوی اور اطاعت کی تلقین کی پھر سچے مومنوں کی شان بتلائی پھر آیت (٥) میں فرمایا اس معاملہ کو بھی ویسا ہی معاملہ سمجھو جیسا بدر میں پیش آیا تھا۔ لوگوں کی خواہش دوسری تھی، اللہ کے رسول کا فیصلہ دوسرا تھا، لیکن بالآخر سب نے دیکھ لیا کہ حق بات وہی تھی جو اللہ کے رسول نے چاہی تھی۔ وہ معاملہ یہ تھا کہ ہجرت کے دوسرے سال جب روسائے مکہ نے مدینہ پر حملہ کیا تو اسی زمانہ میں ان کا ایک تجارتی قافلہ بھی شام سے مکہ آرہا تھا اور مدینہ کے قرب و جوار سے ہو کر گزرنے والا تھا۔ پیغمبر اسلام نے وحی الہی سے مطلع ہو کر فرمایا ایک گروہ مکہ سے آرہا ہے۔ دوسرا قافلہ ہے، ان دو میں سے کسی ایک سے ضرور جنگ ہوگی، اور تم کامیاب ہوگے، چونکہ قافلہ کے ساتھ بہت تھوڑے آدمی تھے اس لیے مسلمانوں کی خواہش تھی کہ اسی سے مقابلہ ہو، مکہ والی فوج سے نہ لڑیں کیونکہ خود بڑی ہی کمزوری اور بے سروسامانی کی حالت میں تھی۔ مگر پیغمبر اسلام نے لوگوں کے ان خیالات کی کچھ پروا نہ کی اور حملہ آوروں کے مقابلہ کا فیصلہ کرلیا، نتیجہ یہ نکلا کہ تین سو تیرہ بے نواؤں نے روسائے مکہ کے پورے لشکر کو شکست دے دی۔